خبرنامہ

محفوظ شہید کی قبر تک از حبیب گوہر

پوٹھوہار کی ہزار سالہ تاریخ گھوڑے کی پیٹھ پر سوار نظر آتی ہے۔وکٹوریہ کراس سے نشانِ حیدر تک ہر اعلیٰ اعزاز اس کے ماتھے کا جھومر بنا ہے۔ گمنام اور بے تمغہ شہیدوں کے گوشوارے اس کے علاوہ ہیں۔ اس دلیر دھرتی کا شاید ہی کوئی خاندان ایسا ہو جس کے کسی سپوت نے وطن کے تحفظ کا حلف نہ اٹھایا ہو۔ ایک ایسا ہی سرفروش پنڈ ملکاں کا لانس نائیک محمد محفوظ شہید نشانِ حیدر ہے۔

کافی عرصے سے 6 ستمبر کو محفوظ شہید کی تربت پرحاضری کا ارادہ تھا جواس مرتبہ پورا ہوا۔پنڈی کہوٹہ روڈ پر چکیاں کے مقام پر آویزاں بورڈ شہید کے مزار کی نشان دہی کرتا ہے۔ماضی میں سواں کے پانیوں پر چلنے والی پن چکیوں کی وجہ سے یہ جگہ چکیاں کہلاتی ہے۔یہاں کے آر ایل کی ایک چیک پوسٹ اور معروف دینی سکالر سید عبدالقادر شاہ کے زیرِ تعمیر تعلیمی ادارے کی پرشکوہ عمارت ہے۔

محفوظ شہید کے مزار کو جانے والا روڈ محفوظ شہید کے نام سے منسوب ہے۔ چکیاں سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر پنڈ ملکاں ہے۔ یہ سڑک باغ جوگیاں سے ہو کر بھمبر تراڑتک جاتی ہے۔ باغ جوگیاں سے قلعہ پھروالہ کا راستہ بھی ہے۔

دائیں ہاتھ شہید کے مزار تک پختہ سڑک موجود ہے۔ آج یہاں بہت گہما گہمی ہے۔ سب گاڑیوں، کاروں اور موٹرسائیکلوں کا رخ محفوظ شہید کے مزار کی طرف ہے۔ سلامی کی تقریب ہو چکی ہے اور مزار کے ساتھ ہی احاطے میں ’’محمد محفوظ شہید رورل ویلفیئر فاونڈیشن‘‘ نے ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا ہوا ہے۔ تقریب کے بعد محفوظ شہیدکے بھائی محمد معروف کے گھر ریفریشمنٹ کا انتظام ہے۔ ان کے بیٹے میجرنوخیز معروف بھی موجود ہیں۔ ریفریشمنٹ کے بعد وزٹرز بک میں تاثرات قلمبند کئے جس میں زیادہ تر محفوظ شہیدکے یونٹ افسران کے تاثرات ہیں۔

محمد محفوظ کا تعلق پنڈ ملکا ں کے ایک غریب گھرانے سے تھا۔بے نیاز نے پنڈ ملکاں کے اس بے نشاں کو نشانِ حیدر عطا کر دیا۔ملک کے اس اعلیٰ ترین جنگی اعزاز کا نام حضرت علیؓ کے لقب حیدر کرار (بار بار حملہ کرنے والا شیر) کی نسبت سے نشان حیدر رکھا گیا۔محفوظ پاک فوج کا پہلا ’’جوان‘‘ تھا جسے یہ پنج کونی اور پنج دھاتی ستارہ دیا گیا۔

مزار ایک احاطے کے اندر ہے۔ مزار کے دائیں طرف مالٹے اور بائیں طرف سرو کا ایک ایک درخت ہے۔ احاطے میں خوبصورت پھول لگے ہوئے ہیں۔ گیٹ کے ساتھ ایک یادگاری لوح پر سرفروش کی داستان کے عنوان سے شہید کی حیات اور شہاد ت کی تفصیل درج ہے۔جس کے مطابق محفوظ 1857 میں الہ آباد میں تشکیل پانے والی 33 محمدی میں فائرر کے طور پر بھرتی ہوا۔ تقریب میں محفوظ کے فوج کے ایک ساتھی چکوال کے صوبیدار (ر) ریاض بھی آئے ہوئے تھے۔ ان کے بہ قول 33 پنجاب میں مسلمان سپاہ کی اکثریت تھی اس لئے یونٹ کے سربراہ نے کروڑ کے صوبیدار میجر مانا خان سے اپنی مرضی کا نام رکھنے کو کہا۔ جنہوں نے 33 محمدی پسند کیا۔ پنجاب رجمنٹ تشکیل پانے کے بعد اسے 15 پنجاب کر دیا گیا۔

لڑکپن میں محفوظ کبڈی کا شوقین تھا۔ کسے خبر تھی کہ جب اس شیر دل ’’کھڈیار‘‘ کا پِڑ دشمن سے پڑے گا تو اس کی زور آوری قوم کو ولولۂ تازہ عطا کرے گی۔ اس کے خون سے خاکِ پاک کے چہرے پر نکھار آئے گا۔دنیا اس کی قبر پر حاضری دے گی اور ہر سال چاق چوبند دستے اسے سلامی پیش کریں گے۔ مزار کا چبوترہ ہشت پہلو ستارے کی شکل کا ہے۔ چبوترے اور قبر کا تعویذ سفید سنگ مرمر کا ہے جب کہ گنبد کی چھت سرخ ہے۔ ان کے درمیان شیشے کی دیواریں ہیں۔ مزار کے اندر اسمائے حسنٰی اور قرآنی آیات درج ہیں۔

صاحبِ قبر کا کردار قبر کو زندہ کر دیتا ہے۔ٹیپو سلطان کی قبر پر حاضری دینے والے ان کے کردار کی تمکنت کو محسوس کرتے ہیں۔کچھ ایسی ہی کیفیت یہاں محسوس ہوئی۔جسم میں برقی رو دوڑنے لگی ، آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور سر عقیدت سے جھک گیا۔ وقت سمٹ گیا اور شہید کی شہادت کا منظر نگاہوں کے سامنے پھرنے لگا۔

17 اور 18 دسمبر 1971 کی درمیانی رات کا منظر ہے۔ 33 محمدی اپنے ٹارگٹ کے تعاقب میں ہے۔ گولیوں کی بوچھاڑ نے اس کی پیش قدمی روک دی ہے مگر چیتا صفت محفوظ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔گولیوں نے ٹانگیں چھلنی کر دی ہیں مگر وہ کہنیوں کے بل دشمن کے بنکر تک جا پہنچا ہے۔ وہ یک لخت گارڈ پر جھپٹتاہے اور اس کے گلے میں اپنے پنجے گاڑ دیتا ہے۔ایسے میں اسے شہید کر دیا جاتا ہے۔

محفوظ کی میت چکیاں پہنچی تو سواں چڑھا ہوا تھا۔۔ مقامی افراد کی ہمت سے لاش پار کی گئی اور انہیں پنڈ ملکاں کے عام قبرستان میں دفنا دیا گیا۔مد مقابل یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل پوری اس منظر کے عینی شاہد تھے۔ انہوں نے محفوظ کی جرأت کا شان دار الفاظ میں اعتراف کیا ۔ شہادت کے 6 ماہ بعد انہیں نشان حیدر دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ انہیں موجودہ جگہ پر دفنانے کے لئے قبر کشائی کی گئی تو عینی شاہدین کے بقول شہادت کی مقبولیت کی تمام نشانیاں موجود تھیں۔

شہید کی قبر کے ساتھ ان کی والدہ سرور جان کی قبر ہے۔جسے دیکھ کر بے اختیار صوفی تبسم کی نظم۔۔۔اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے! یاد آ جاتی ہے۔ملکہ ترنم نورجہاں نے 65 کی جنگ میں یہ نظم اس پرسوز انداز میں گائی کہ آج بھی اسے سن کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ اسلام آباد اپنے مقدر پر فخر کر سکتا ہے کہ اس کے شرقی اور غربی سرے پر مہراوربر ی جیسے جید اولیاء اور جنوبی سرے پر محفوظ شہید کی قبریں موجود ہیں۔