خبرنامہ

گیت بنے ہتھیار…ابصار احمد

پانچ اور6 ستمبر کی درمیانی شب جب ارضِ پاک کے باسی سکون کی نیند سو رہے تھے صبح صادق سے کچھ دیر قبل اچانک پاک سرزمین پر دھماکوں کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں ،فضائیں بارود سے اَٹ جاتی ہیں ،سمجھ نہیں آتا تھا کہ اچانک یہ کیا ہوا ہے؟مگر سرحدِ پاک کے محافظ سمجھ گئے کہ اٹھارہ برس سے نفرت زدہ دشمن آج بین الاقوامی سرحدعبور

کر چکا ہے۔

علیٰ الصبح لاہورکے کنارے بہتی بمباں والی۔ راوی بیدیاں۔ دیپال پور لنک کینال پر دشمن کا جمِ غفیر تابڑ توڑ حملے کی کوششوں میں مصروف تھا کہ صرف بی آربی عبور کرکے

پاکستان پر اپنے ناپاک قدم رکھ سکے مگر پاک فوج کے جوانوں نے لاہور جمخانہ میں مشروب نوش کرنے کی خواہش رکھنے والوں کومنہ کی کھانی پڑی۔ جیسے ہی ریڈیو پاکستان لاہور سے حملے کی خبر نشر ہوتی ہے اس کے فوراََ بعد عنایت حسین بھٹی کی آواز میں فلم چنگیز خان کا ترانہ’’اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا‘‘ ہر پاکستانی کو جذبہ جہاد پر ابھارتے ہوئے کہتا ہے کہ

’’چلو واہگہ کی سرحد پر وطن پر وقت آیا ہے

چلو واہگہ کی سرحد پر چلو واہگہ کی سرحدپر‘‘

اس کے بعد تمام ریڈیو اسٹیشنز پر قومی نغمات گونجنے لگتے ہیں۔پھرارضِ وطن کے شعراء،مطربان اور مغنّیوں کا رُخ ریڈیو پاکستان کی طرف ہوتا ہے تاکہ وہ اس ملّی فریضے میں پاک فوج کے ہمراہ اپنا اپنا حصہ ڈال کر قرونِ اولیٰ میں مجاہدین کے لئے رجز پڑھنے والی فوج میں اپنا نام لکھوا سکیں،یہاں سے ہماری قومی حربیہ موسیقی کا ایک روشن باب شروع ہوتا ہے جو ہمارے سبز گیتوں کی تاریخ میں انتہائی نمایاں ہے۔ صبح صدرمملکت جناب فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم کی تاریخی تقریر نشر ہوتی ہے جس کے فوراََبعد منور سلطانہ ،دھنی رام اور قادر فریدی کی آواز میں نغمہ نشر ہوتا ہے ’’آواز دے رہا ہے زمانہ بڑھے چلو‘‘ یہ نغمہ8 سال پہلے کسی فلم کے لئے بنا تھا مگر آج اس کے الفاظ اپنی ایک الگ اہمیت بتا رہے تھے۔ ریڈیو پاکستان میں جتنے قومی نغمات تھے سب نشر ہونے لگے تو آنجہانی نوئل ڈائس المعروف سلیم رضا سب سے پہلے ریڈیو سٹیشن پہنچے اور بلا معاوضہ اپنی خدمات پیش کرنے کا اعلان کیا۔جنگِ ستمبر میں سب سے زیادہ نغمات انہوں نے ہی ریکارڈ کروائے جن کی تعداد 22 تھی ۔17 روزہ جنگ کے دوران ان کے کچھ نغمات

یہ تھے جو انہوں نے پورے جوش وجذبات سے گائے:

اے ہوا کے راہیو ! بادلوں کے ساتھیو !

(شاعر: محمود شام)

میرے لاہور شہر دیاں خیراں ،رنگ لایا راوی دیاں لہرا

(شاعر :استاد دامن )

اے وطن میرے وطن پیارے وطن

( شاعر: قتیل شفائی)

جگ جگ جی نگری داتا کی

( شاعر :قیوم نظر )

اٹھو اٹھو مجاہدو! ہاں خدا کا نام لو

( شاعر :قیوم نظر )

توحید کے متوالو! باطل کو مٹادیں گے

( شاعر :حبیب جالب )

جنگ کے میداں ترے صحنِ چمن سے کم نہی

( شاعر :ظہیر کاشمیری)

طارق اک جرنیل ہمارا،فتح کیا اسپین کو جس نے
(شاعر:قیوم نظر)
ان کے علاوہ شہرِ استقلال سیالکوٹ کو شاندارخراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے انہوں نے دو نغمات ساکنانِ سیالکوٹ کی نذر کئے جو یہ تھے۔ زندہ رہے گا،زندہ رہے،سیالکوٹ تو زندہ رہے گا

( شاعر :ناصر کاظمی )

اے ارضِ سیالکوٹ تم کو مرا سلام

( شاعرہ :کشور ناہید)

جنگِ ستمبر کے عظیم مجاہد میجر عزیز بھٹّی شہید کو ناصر کاظمی کا تحریر کردہ خراجِ عقیدت’’تو ہے عزیزِ ملّت نشانِ حیدر‘‘ گانے کا اعزاز بھی سلیم رضا ہی کے دامن میں ہے۔

ریڈیو پاکستان لاہور پر پہلا ترانہ6 ستمبر ہی کو تیار ہوا جو دراصل صدرِ پاکستان کی تقریر کے الفاظ’’ہندوستانی حکمران ابھی نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قسم کو للکارا ہے‘‘ سے متاثر ہوکر حمایت علی شاعر نے لکھا تھا،مسعود رانا اور شوکت علی نے پیش کیا جوشام ساڑھے پانچ بجے فوجی بھائیوں کے پروگرام میں نشر ہوا۔ترانہ کے بول کچھ اس طرح تھے ’’ اے دشمنِ دیں تو نے کس قوم کو للکارا۔۔۔لے ہم بھی ہیں صف آراء‘‘۔اس کے علاوہ انہی دونوں گلوکاروں کا مشہور ترانہ جو2 دن قبل ہی ریلیز ہونے والی فلم ’’مجاہد‘‘ کا حصہ تھا‘ جنگِ ستمبر کا مشہور ترانہ ثابت ہوا۔حمایت علی شاعر کی شاعری اور خلیل احمد کی موسیقی سے سجا ’’ساتھیو!مجاہدو!جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ آج بھی سامعین اور فوجی بھائیوں کے جذبات کو گرمادیتا ہے۔مسعود رانا اور شوکت علی نے 13 ستمبر کو حبیب جالب کا تحریر کردہ نغمہ ’’کردے گی قوم زندہ ماضی کی داستانیں‘‘ بھی ریکارڈ کروایا جو بعد میں فلم’’وطن کا سپاہی‘‘کا حصہ بنا۔ ملکہ ترنم نورجہاں کا ذکر نہ ہوتو ہماری جنگی اور سبز گیتوں کی تاریخ ادھوری لگتی ہے کیونکہ وہ اس وقت فلم انڈسٹری کی سب سے مہنگی گلوکارہ تھیں جو ایک گیت کی تسجیل کے لئے 4 ہزار روپے لیا کرتی تھیں مگر انہوں نے وطنِ پاک کی محبت میں 10 نغمات بلا معاوضہ ریکارڈ کروائے اور ریڈیوسٹیشن لاہور ہی کو اپنا ٹھکانا بنا لیا‘ نیز تمام نغمات کی موسیقی انہوں نے خود ہی ترتیب دی سوائے ’’اے وطن کے سجیلے جوانو!‘‘ کی،جس کے موسیقار میاں شہریار تھے ۔ اور12ستمبر کو نشر ہونے سے پہلے یہ رن کچھ کی جنگ کے دوران بنا تھا تاہم وہ اس وقت تک نشر نہیں ہو سکا تھا۔17روزہ جنگ میں میڈم کے جنگی ترانوں کی تفصیل یوں ہے:

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں صوفی غلام مصطفی تبسم

8ستمبر

ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے صوفی غلام مصطفی تبسم

10ستمبر

یہ ہواؤں کے مسافر یہ سمندروں کے راہی صوفی غلام مصطفی تبسم

11 ستمبر

اے وطن کے سجیلے جوانو جمیل الدین عالی

12ستمبر

امیدِ فتح رکھو اور علم اٹھائے چلو احسان دانش

13 ستمبر

جاگ اے مجاہدِ وطن مظفر وارثی

14 ستمبر

کرنیل نی جرنیل نی صوفی غلام مصطفی تبسم

16 ستمبر

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن علامہ محمد اقبال

17 ستمبر

رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو تنویر نقوی

18 ستمبر

حکومتِ پاکستان نے ان کی بے مثل خدمات کے صلے میں 18 جنوری 1966کو تمغۂ خدمت کے ساتھ ساتھ ملکہ ترنم کے خطاب سے بھی نوازا۔ ریڈیو لاہور سے مشہور فلمی گلوکار عنایت حسین بھٹّی نے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے یہ چار نغماتِ وطن پیش کئے:

7 وطن کو تم پہ فخر ہے ،وطن کی تم ہی شان ہو

7 میرے وطن کا سبز ہے پرچم جس پر چاند ستارہ ہے

7 وسے ساڈا پاکستان پیر میریا جگنی

7 تیرے ہمدم ترک‘ انڈونیشیا،ایران و چین

شاہینوں کے شہر سرگودھا کو گیتوں میں واحد خراجِ تحسین بھی بھٹّی صاحب ہی نے پیش کیا ناصر کاظمی کے قلم سے نکلے اس نغمے کے بول یہ تھے ’’زندہ دلوں کا گہوارا ہے سرگودھا میرا شہر‘ عنایت حسین بھٹی کا جذبہ حب الوطنی پر یہ واقعہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنا تمام سرمایہ پاک فوج کے دفاعی فنڈ میں جمع کروادیااور صرف 250 روپے رکھے ۔جب ان کی اہلیہ نے پوچھا کہ اگر جنگ طویل ہوگئی تو پھر کیا ہوگا؟اس پر انہوں نے برجستہ جواب دیا اگر میرا پیارا ملک ہی نہ رہا تو کیا ہوگا؟اس لئے میرا سب کچھ میرے وطن کا ہے۔

فلم شہید کے لئے فیض کا نغمہ’’نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں‘‘ گا کر شہرت حاصل کرنے والے منیر حسین نے بھی ریڈیو لاہور سے افواجِ پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان گیتوں سے خود کومتعارف کروایا:

دشمن اج للکاریا ساڈے دیس دے جان نثاراں نوں
( شاعر :خواجہ عطاء )
مجاہدینِ صف شکن بڑھے چلو بڑھے چلو
(شاعر : احسان دانش)
زندہ ہے لاہور پائندہ ہے لاہور
(شاعر : قیوم نظر )
سیالکوٹ کے لوگوں پہ فخر ہے ہم کو
(شاعر : قیوم نظر)
سمندروں کے پانیو! بہو تو تیز تر بہو!
(شاعر :محمود شام )
13ستمبر کو پاکستانی فلم انڈسٹری کے مشہور موسیقار میاں شہریار نے جنگی ترانوں میں مشیر کاظمی کا تحریر کردہ ایک خوبصورت اور جذبات سے بھرپور قومی نغمہ متعارف کروایا جسے مشہور پسِ پردہ گلوکارہ نسیم بیگم نے احساس میں ڈوب کر گایا: ’’اے راہِ حق کے شہیدو! وفا کی تصویرو!

تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں‘‘

یہ وہ نغمہ تھا جس کے اثرات چونڈہ کے محاذپر گھمسان کی جنگ میں نظر آئے،جو وقتی تھکاوٹ سے نڈھال مجاہدین کو جذبہ شہادت پر ابھار کر قتیل شفائی کے الفاظ میں نسیم بیگم ہی کی آواز میں کہتا تھا

’’لائی ہوں میں تمہارے لئے پیار کا پیام

اے پھول سے مجاہدوں تم کو مرا سلام

اے مادرِ وطن اونچا ہو تیرا نام‘‘

ان کے علاوہ نسیم بیگم کا ایک اور خوبصورت قومی نغمہ ’’وطن کی شان میرا ہمراہی۔۔۔میری دنیا ہے میرے سر کا تاج ہے‘‘ بھی دورانِ جنگ نشر ہوا جو بعد میں فلم’’وطن کا سپاہی‘‘ میں شامل ہوا۔

مشہور غزل گائیک استاد امانت علی خان نے بھی دو قومی نغمات ریکارڈ کروائے۔جن میں اثر ترابی کا تحریر کردہ نغمہ’’اے شہیدانِ وطن تم پر سلام ‘‘ پران کو تمغہ خدمت سے نواز گیا جبکہ احمد ندیم قاسمی کا لکھا ہوا دوسرا نغمہ بھی وطنِ عزیز کے رکھوالوں سے محبت کا منفرد انداز ہے جس کے بول کچھ اس طرح ہیں :

وطنِ پاک کی عظمت کے سہارے تم ہو

مجھ کو اپنے نغموں سے بھی پیارے تم ہو

ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم نے بھی اپنی آواز کا جادو جگاتے ہوئے حمایت علی شاعر کا تحریر کردہ نغمہ’’اے بھائی تیرے ساتھ بہن کی ہیں دعائیں‘‘ پیش کیا اس کے علاوہ پاک فضائیہ کے طیارے سیبر ایف 86 کے لئے ’’اے پاک فضائیہ تیرے سیبر کی خیر ہو‘‘ جیسا منفرد نغمہ بھی انہی کے کریڈٹ میں ہے۔ مشہور لوک گلوکار محمد عالم لوہار کی’’جگنی پاکستان دی اے‘‘ بھی منفرد اور مشہور جنگی ترانہ ہے جسے ڈاکٹر رشید انور نے تحریر کیا ،یہ انہوں نے اپنے روائتی انداز میں چمٹے کی دھن پر دو حصوں میں گائی جس کا ایک حصہ اب بالکل نایاب ہو چکا ہے۔اس کے علاوہ صہبا اختر کا نغمہ’’دنیا جانے میرے وطن کی شان‘‘ اور ڈاکٹر رشید انور ہی کا تحریر کردہ ’’ساڈے شیراں پاکستانیاں‘‘ 17 دنوں میں محمد عالم لوہار کی طرف سے وطن، عزیز سے محبت کی زندہ مثالیں ہیں۔

ریڈیو لاہور کی طرح ریڈیو کراچی بھی پیچھے نہ تھا یہاں بھی کئی گلوکاران وطن محاذِ صوت پر تھے،جن میں شہنشاہِ غزل مہدی حسن اور تاج ملتانی نمایاں رہے جبکہ نسیمہ شاہین اور نگہت سیما نے کورس میں تمام گلوکاروں کا ساتھ دیا۔مہدی حسن خاں صاحب نے مسرور انور کا تحریر کردہ نغمہ’’اپنی جاں نذر کروں‘‘ گا کر جنگی و قومی ترانوں کی صف میں قدم رکھا اس کے موسیقار سہیل رعنا تھے اور یہ نغمہ9 ستمبر کو نشر ہوا۔اس کے بعد خاں صاحب نے کئی نغماتِ حرب و وطن کی تسجیل کروائی جو یہ تھے:

اللہ کے وعدے پہ مجاہد کو یقیں ہے ،اب فتح مبیں ،فتحِ مبیں ہے

( شاعر : رئیس امروہوی)

پاک شاہینوں فضا کے شہریاروں کو سلام
( شاعر :ضمیر جعفری )
سیالکوٹ کے میدانِ کارزار کو دیکھ
( شاعر :رئیس امروہوی)
اے ارضِ لاہور اے اہلِ لاہور،داتا کی نگری اے شہرِ لاہور
( شاعر : رئیس امروہوی)
وطن کی آبرو رکھ لی وطن کے پاسبانوں نے
( شاعر :اختر کاشمیری )
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
( شاعر : علامہ محمد اقبال)
دشمنِ دین کے مقابل ہیں وطن کے غازی
( شاعر :عظیم سرور )
کافر سے جنگ ہو تو مسلمان ایک ہے
( شاعر:مظفر وارثی )
ہم امن پسندوں کو نہیں جنگ گوارا
( شاعر :جون ایلیا )
عظیم قوم کے بیٹے تیری جرأت کو سلام
( شاعر :مسرور زیدی )
تو نگہبانِ چمن ہے تجھے سب مان گئے ۔شہناز بیگم کے ہمراہ
(شاعر:طفیل ہشیارپوری )
مہدی حسن خان صاحب کا سب سے مشہور قومی نغمہ وہ ہے جو انہوں نے اہلیانِ لاہور کی نذر کیا۔پروڈیوسر جناب عظیم سرور کہتے ہیں کہ دورانِ جنگ اہلِ لاہور کے عزم و استقامت کے پیشِ نظر ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کو شاندار اور یادگار خراجِ تحسین پیش کیا جائے تو فوراََ رئیس امروہوی صاحب کو فون کیا انہوں نے اس محاذ کی صورتحال پوچھنے کے بعد‘ فون پر ہی فی البدیہہ لکھوادیا اور ایک گھنٹے کے اندر مہدی حسن ہی نے اس کی دھن بنائی اور ان کے ساتھ نسیمہ شاہین،اسماء احمد اور نگہت سیما نے مل کر اسے ریکارڈ کروادیا،شام ساڑھے پانچ بجے فوجی بھائیوں کے پروگرام میں یہ نغمہ پاک فضاؤں میں بکھرا تو ہر ایک کی زباں پر تھا:

خطہ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام

شہریوں کو غازیوں کو شہسواروں کو سلام

ریڈیو کراچی سے سب سے زیادہ قومی نغمات گانے کا اعزاز ایک 24 سالہ نوجوان گلوکار تاج ملتانی کو حاصل ہوا جنہوں نے 6 ستمبر ہی کو کراچی ریڈیو سٹیشن سے محشر بدایونی کا تحریر کردہ نغمہ’’اپنی قوت اپنی جان لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ ۔۔۔ہر پل ہر ساعت ہر آن جاگ رہا ہے پاکستان‘‘ ریکارڈ کروایا جس کے موسیقار نتھو خان تھے۔یہ نغمہ دراصل چوروں کی طرح گھسنے والے دشمن کو بیدار پاکستان کا پتہ دے رہاتھا۔ان کا سب سے مشہور نغمہ وہ ہے جس کو سن کر بھارتی فوج بلبلا جاتی تھی اور معاہدہ تاشقند کے بعد ایک خصوصی درخواست پر اسے بند کروایا گیا۔ استاد نتھو خان کی موسیقی کے ساتھ 13 ستمبر کو دشمن کی حقیقت بتانے کے لئے یہ نغمہ تیار تھا۔

اج ہندوواں جنگ دی گل چھیڑی اکھ ہوئی حیران حیرانیاں دی

مہاراج! اے کھیڈ تلوار دی اے،جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی

پاک فضائیہ کو بھی پہلا خراجِ تحسین کراچی ریڈیو ہی سے پیش ہوا جسے تاج ملتانی نے ہی گایا۔رئیس فروغ صاحب کا تحریر کردہ اور رفیق غزنوی کی موسیقی سے سجا نغمہ’’شاہین صفت یہ تیرے جواں اے فضائے پاک‘‘ آج بھی سننے والوں کو یاد ہوگا،اس کے علاوہ رئیس امروہوی کاتحریر کردہ ایک اور نغمہ ء فضائیہ ’’اپنی فضائیہ کے یہ انداز دیکھئے ‘‘ 14 ستمبر کو انہوں نے ہی ریکارڈ کروایا۔ملک کے مشرقی حصے کے جذبات کو اجاگر کرتے ہوئے ابو سعید قریشی کی شاعری اور سہیل رعنا کی موسیقی سے سجا نغمہ’’آؤ چلیں اس پار مانجھی‘‘ بھی تاج ملتانی ہی کا تھا۔ان کے علاوہ تاج صاحب کے یہ نغمات جنگِ ستمبر کے دوران نشر ہوئے:

ہم اپنے صف شکنوں کو سلام کہتے ہیں
(شاعر :جون ایلیا )
یہ دس کروڑ انساں ملت کے ہیں نگہباں
( شاعر : مسرور انور)
مرحبا عزم و شجاعت کے علمبردارو!
(شاعر:عاشور کاظمی)
اے شہیدانِ وطن اے شہیدان وطن
( شاعر :نفیس فریدی بدایونی)
تم کو معلوم نہیں حق کے پرستار ہیں ہم
( شاعر :فیاض ہاشمی )
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
( شاعر: علامہ محمد اقبالؒ )
میرے وطن کے نوجواں ،دلیر صف شکن جواں
( شاعر :قیوم نظر )
زمانے میں صدائے نعرہء تکبیر گونجے گی
(شاعر:طفیل ہشیارپوری )
تو حدیثِ زندگی کی اس طرح تفسیر کر
( شاعر:طفیل ہشیار پوری )
نفس نفس میں ہے جن کے حیاتِ نو کا پیام‘اپنی اہلیہ نگہت سیما کے ہمراہ
(شاعر: ابو سعید قریشی)
تم نے جیت لی ہے جنگ یہ ‘اے جوانو! اے جیالو!
( عشرت جہاں کے ہمراہ کورس میں ، شاعر :تراب نقوی)
کراچی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی فلم انڈسٹری کے شوخ گلوکار احمد رشدی (مرحوم) بھی جنگی ترانوں میں کسی سے پیچھے نہ رہے۔انہوں نے اپنی روایتی شوخی دشمن پر نکالتے ہوئے بھارت پر تین طنزیہ اور انوکھے قومی نغمات ریکارڈ کروائے جن کے بول یوں تھے: دوڑیو باپو بھارت دیش کی ہوگئی جگت ہنسائی
( شاعر:اکبر خان اصغر )
لالاجی جان دیو لڑنا کیہہ جانو تسی مرلی بجاون والے جنگ تہاڈے وسدی نئیں
(شاعر : سلیم گیلانی)
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
( شاعر : سلیم گیلانی)
دوارکا کے مضبوط بحری مستقر کو تباہ کرنے بعدپاک بحریہ کو پہلا خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے احمد رشدی اور نگہت سیما نے 9ستمبر ہی کی صبح یہ نغمہ نذرِ سامعین کیا۔

فرمانروائے بحرِ عرب پاک بحریہ

بھارت میں تیرا نام ہے بے باک بحریہ

( شاعر : جون ایلیا ،موسیقی :نتھو خان )

پاک فضائیہ کے عظیم ہواباز ائیر کموڈور(ر) غازی ایم ایم عالم کو مظفر وارثی کا تحریر کردہ واحد نغماتی نذرانہ احمد رشدی ہی کو پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہے جس کا مکھڑا کچھ یوں ہے :

’’ ناز ہے پاکستان کو تجھ پہ اے مشرق کے لال ۔۔۔اے شیرِ بنگال‘‘
جنگِ ستمبر میں احمد رشدی کے دیگر نغماتِ حرب یہ تھے:
اے کراچی مرحبا اے کراچی مرحبا
( شاعر :جون ایلیا )
لاہور سربلند ہے لاہور زندہ باد
(شاعر :جون ایلیا )
ارضِ سیالکوٹ حرمِ مرتبت ہے تو
( شاعر:حمید نسیم)
سر کشی ہے جنگ آمادہ تو پھر یونہی سہی
( شاعر : جون ایلیا )
ہم گبھرو پاکستان کے ہم شیروں کے سردار
( شاعر :سلیم گیلانی )
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
( شاعر :علامہ محمد اقبال )
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
( شاعر:علامہ محمد اقبال)
کراچی سے ایک اور گلوکارہ ناہید نیازی نے ایک خوبصورت پنجابی ترانہ ’’جان دے کے اپنی توں ملک بچالیا۔۔۔صدقے جاواں میں ترے ماں گہن کہنے والیا‘‘گایا جس میں ایک شہید کی ماں کے جذبات تھے اس گیت کو ساحل فارانی نے الفاظ میں سمویا جبکہ موسیقی مصلح الدین کی تھی۔ اسی طرح عشرت جہاں جنگِ ستمبر کی ایک لوری ’’میرے بیٹے آج میں تجھ کو نئی لوری سناتی ہوں۔۔۔اپنے شہیدوں کے بارے میں آج تجھے بتلاتی ہوں‘‘ ریکارڈ کروائی۔نگہت سیما نے قتیل شفائی کا لکھا ’’اے میرے نورِ نظر جاتا تو ہے بہرِ جہاد۔۔۔جو نصیحت کر رہی ہوں ہر قدم پہ رکھنا یاد‘‘ گا کر ایک ماں کی مجاہد کو وصیت بتائی تو مالا بیگم نے حمایت علی شاعر کے لکھے ہوئے الفاظ میں ’’میرے بہادر بھیّا سینہ سپر رہنا‘‘ ریکارڈ کرواکر ایک بہن کے مجاہد بھائی سے جذبات کو عیاں کیا۔ جنگ کے دوران ریڈیو پاکستان کے تمام سٹوڈیوز اتنے مصروف تھے کہ وہاں ریکارڈنگ میں مشکلات پیش آرہی تھیں تو اس موقع پر مشہور گراموفون کمپنی ای ایم آئی نے جذبہ حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سٹوڈیوز اور ملازمین کی خدمات بلا معاوضہ ریڈیو کو پیش کردیں ۔وہاں بھی کئی نغمات ریکارڈ ہوئے جن میں زرینہ آغا نے8 جنگی ترانے ریکارڈ کروائے۔ ان کے علاوہ مشہور صنعتکار خاندان تابانی گروپ کے حبیب ولی محمد (جن کا گزشتہ سال انتقال ہوا ہے ) نے بھی اسی سٹوڈیو میں دورانِ جنگ وہ قومی نغمات پیش کئے جو آج بھی ذہن کے پردوں میں محفوظ ہیں جن میں شاعر لکھنوی کا تحریر کردہ اور سہیل رعنا کی دھن سے مزیّن ’’اے نگارِ وطن تو سلامت رہے‘‘ ان کی پہچان ہے۔یہ نغمہ20 ستمبر کو نشر ہوا۔حمایت علی شاعر کی نظم ’’لہو جو سرحد پہ بہہ چکا ہے ‘‘ اِن کی آواز میں محاذ پر مجاہدینِ پاک کے حوصلے بڑھاتی رہی۔

جنگِ ستمبر میں ملک کے مشرقی حصے کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے کشمیر سے لے کر لاہور کے محاذتک ارضِ وطن سے اپنی محبت کا ثبوت دیا۔ ان کے لئے بھی مغربی حصے نے نغماتِ تہنیت بنائے جو یہ تھے:
مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام
( گلوکار :سلیم رضا)
مشرقی پاک کے نوجواں غازیو!
( گلوگار :تاج ملتانی،زمرد بانو و دیگر )
سلام اے ڈھاکا و چاٹگام کے غازی نگہبانو!
( گلوکار :بشیر احمد اور ساتھی )

کشمیری مجاہدین کی لازوال قربانیوں اور جہدِ مسلسل کو بھی ہمارے فنکاروں نے بہت خوبصورت انداز میں یاد رکھا اور دورانِ جنگ یہ نغمات ریڈیو پاکستان اور ریڈیو صدائے کشمیر سے گونجتے رہے :
کشمیر سے وابستہ ہے تقدیر ہماری
( گلوکار :سلیم رضا )
اٹھے جہاد کے لئے سری نگر کے نوجواں
( گلوکار :سلیم رضا )
نڈر دلیر بچیاں سری نگر کی بیٹیاں
( گلوگارہ:نذیر بیگم )
جاگ اٹھا کشمیر،جاگ اٹھا کشمیر
( گلوکار :سلیم شہزاد )
اے وادی کشمیر اے وادی کشمیر
(گلوکاران :احمد رشدی،نگہت سیما و کورس)
اے وطن کے نوجواں وادی ء کشمیر ہے دیکھ تیرا امتحاں
( گلوکارہ :زمرد بانو)
میرے وطن تیری جنّت میں آئیں گے اک دن
( گلوکارہ:انیقہ بانو )
اے وادیء لولاب اے وادیء لولاب
( ملکہ پکھراج )
جنگِ ستمبر کے فوراََ بعد ایک ایسا نغمہ ریڈیو کراچی سے نشر ہوا جس کے بغیر ہمارے عسکری سبز گیتوں کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ،وہ نفیس فریدی بدایونی کی تحریر کردہ ایک طویل نظم تھی جس کے کچھ حصے استاد حامد حسین کی مرتب کردہ موسیقی پر گلوگار نہال عبداللہ نے ریکارڈ کروائے ،یہ پوربی زبان میں بھارتی فوج کی اپنے نیتاؤں سے شکایت کے ساتھ ساتھ بھارتی عوام کو پاکستانی فوج کے حوصلے بتارہی تھی، اس نغمے کے بول یہ تھے’’پاکستانی بڑے لڑئیّا جن کی سہی نہ جائے مار‘‘۔یہ ہماری قومی نغمات کی تاریخ کا سب سے طویل جنگی ترانہ ہے جو تقریباََ 14 منٹ پر مشتمل ہے۔اسی طرح یاور عباس کے الفاظ میں نہال عبداللہ دشمن کو بتا رہے تھے کہ
’’کبھی بھول کر نہ آنا میر ی سر حدوں کی جانب ‘‘
جنگِ ستمبر کے دوران ریڈیو پاکستان کراچی اور لاہور سے نشر شدہ کچھ گم گشتہ عسکری نغمات یہ ہیں: دم بہ دم بڑھا قدم مہرباں ہے آسماں
( گلوکار : سلیم چوہدری)
لہروں سے گزر لہراتا ہوا
( گلوکار :سلیم شہزاد)
اے وطن بیدار ہیں تیرے سجیلے نوجواں
( گلوکارہ : نسیمہ شاہین )
میرے وطن کے شہیدوں کے سربراہ سلام
( گلوکارہ : نجمہ نیازی)
ہاں اے محافظانِ وطن جاگتے رہو
( گلوکار : ایم کلیم )
دن رات پٹے گا جب دشمن
( گلوکار :زواّر حسین )
یہ نشاں یہ ہمارے وطن کا نشاں
( گلوکار:ایس بی جَون )

جنگِ ستمبر 1965ء میں نغماتِ وطن اور مجاہدین کو خراجِ تحسین کا یہ سلسلہ چل نکلا اور تاریخِ پاکستان میں ایک نئے ادب اور نئی طرزِموسیقی کی جہت نے جنم لیا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اتنے کم عرصہ میں صرف دو ریڈیو سٹیشنز کی طرف سے اتنی بڑی تعداد میں ترانے نشر ہوئے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔آج بھی ہمارے سبز گیت بن رہے ہیں اور اور تاابد بنتے رہیں گے تاہم جنگِ ستمبر کے نغمات میں جوش و جذبے کی بات ہی الگ تھی ۔ان نغمات کو جو ہمارے قومی و ملی ورثے کا ایک اہم جزو ہیں‘ محفوظ اور زندہ

رکھنا نہایت ضروری ہے۔ پاکستان تاابد قائم رہے گا اور تاابد یہ نغمے ہماری آزاد فضاؤں میں گونجتے اور لہو کو گرماتے رہیں گے۔