دربار صحافت

سویٹ ، حسنین جاوید۔۔۔تحریر سید عباس اطہر

موت کی نیند سویا ہوا حسنین جاوید بہت خوبصورت لگتا تھا کہ پھر مجھے یوں لگا جیسے مجھے اس کا ایک مخصوص لفظ اسی کی محبت بھری مترنم سی آواز میں بار بار سنائی دے رہا ہے۔ ’’سویٹ!‘‘ ہر ملنے والے کیلئے اس کا تکیہ کلام تھا۔ چند چھوٹے چھوٹے وقفوں کے سوا وہ ہر وقت خوش و خرم اور مسکراتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ شاید موت کو اس لئے مسکرا کر نہ دیکھ سکا ہو کہ اس کا دل اچانک بند ہو گیا۔ میں نے 1988ء میں پہلی مرتبہ نوائے وقت جوائن کیا تھا۔ پھر ’’آوارہ گردی‘‘ پر نکل پڑا اور دو چار اخباروں میں خواری کاٹنے کے بعد اسی کنج عافیت میں واپس آیا۔ میرے پہلے دور میں حسنین جاوید رات کی شفٹ میں میرے ساتھ ہوتا تھا۔ کبھی میں اسے مین چیئر پر بٹھا کر خود اس کا سیکنڈ مین بنتا، کبھی اسے سیکنڈ مین کے طور پر ساتھ بٹھا لیتا۔ وہ ہر حال میں مست رہنے والا آدمی تھا اور ہر روز آخری کاپی جڑواتے وقت مجھے اس پر غصہ آتا تھا۔ مرحوم خبر کو مختصر کرنے پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ مجھے لمبے لمبے بقیہ جات جلدی جلدی کاٹنے پڑتے تو بڑی الجھن ہوتی۔ کبھی کبھی اسے سرزنش بھی کرتا لیکن وہ معصوم سا منہ بنا کر مجھے پشیمان ہونے پر مجبور کر دیتا۔ وہ سرخ سیاہی والے قلم کا شوقین تھا اور خبروں کی سبنگ اور لکھنے کیلئے اسے ہی استعمال کیا کرتا تھا۔ تیز لکھنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ دس صفحے کی خبر بھی اتنی جلدی تیار کرکے میرے سامنے رکھ دیتا تھا کہ حیرت ہوتی۔ خبر کی سبنگ کرتے ہوئے ہر لفظ کے پہلے حرف پر وہ ایک سرخ نشان لگا دیا کرتا تھا جس سے ظاہر یہی ہوتا تھاکہ اس نے ایک ایک لفظ پڑھا ہے۔ ایک مرتبہ مجھے شک گزرا کہ ذہن کی بجائے صرف اس کا قلم خبر میں حاضر ہوتا ہے۔ اس زمانے میں نعیم مصطفٰی ہمارے کرائم رپورٹر تھے۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت میں نے نعیم سے ایک خبر میں ایسا جملہ لکھوا دیا جس کا متن سے تعلق نہیں تھا اور پھر وہ خبر حسنین کو دے دی۔ اس نے ہر حرف کی کھوپڑی پر سرخ نشان لگا کر من و عن وہ خبر مجھے تھمائی تو نعیم مصطفٰی اور میں کافی دیر اس کا ریکارڈ لگاتے رہے اور وہ ہنستا گیا۔ میرا اندازہ ہے کہ بظاہر وہ ہر وقت حاضر اور بے فکر رہتا تھا لیکن کچھ مسائل ایسے تھے جو اس نے اپنے دل میں دبا رکھے تھے۔
نوائے وقت میں میرے ساتھیوں اور میرے ساتھ اس کی بے شمار یادیں وابستہ ہیں۔ مثال کے طور پر اس کی ا لماری سچ مچ ایک چھوٹی سی بیکری تھی جس میں انواع و اقسام کے بسکٹ، پیسٹریاں، میٹھی گولیاں، مٹھائی اور میوہ جات موجود رہتے تھے۔ نیوز روم سے ادارتی صفحے پر منتقل ہونے کے بعد، اس نے اپنے ’’ذخیرے‘‘ میں ساتھیوں اور مہمانوں کیلئے لیموں والے قہوے کی نئی آئٹم کا بڑے اہتمام سے اضافہ کیا اور ایک طرح کی سبیل لگا دی۔ بدھ کو اس کی ہفتہ وار چھٹی تھی۔ سہ پہر تین بجے کے قریب جب اس کی موت کی خبر آئی تو ہمارا ایک ساتھی صدمے کی حالت میں روتے روتے پاگلوں کی طرح ہنس پڑا اور کہنے لگا یہ خبر درست نہیں ہو سکتی۔ دیکھ لینا وہ ابھی اپنے لااُبالی سے ،بے فکرے اور کھلنڈرے انداز میں نیوز روم میں داخل ہو گا اور اُنگلیاں ہلا کر کہے گا ’’ہائے سویٹ! میں ملک الموت کو ڈاج دے کر آ گیا ہوں‘‘۔
پچھلے ایک دو ماہ میں اس کے کالم ’’لاہور سے لاہور تک‘‘ میں پے در پے یاد رفتگان اور ناستیلجیا (NOSTALGIA) کی پرچھائیاں نظر آئیں۔ ایک کالم تو اس نے ایسا لکھا جس میں اس کوٹھی کا ذکر کیا جہاں اس کا بچپن گزرا تھا۔ ممکن ہے اسے موت کی بھنک پڑ گئی ہو۔ حسنین کا بیشتر عرصہ نیوز روم میں گزرا۔ جہاں داخل ہوتے ہوئے وہ سب کو لہک لہک کر سلام کرتا اور ہر ایک سے ’’سویٹ‘‘ کہہ کر الگ الگ مخاطب ہوتاپھر وہ اپنا معمول کا جملہ دھراتا Beginning of the Good Day ۔ہمارے شفٹ انچارج دلاور اس فقرے کا صحیح مفہوم سمجھتے تھے۔ وہ فوراً جیب سے سگریٹ نکال کر اسے پیش کر دیتے۔ دل کی تکلیف کے سبب اسے سگریٹ پینے کی ممانعت تھی لیکن وہ یہ کہہ کر ساتھیوں کی تسلی کر دیتا تھا، میں دھواں اندر نہیں لیجاتا۔ منہ سے ہی باہر نکال دیتا ہوں۔ پچھلے دنوں اسے ایک خط آیا جس میں ایک مداح نے اسے ’’بابائے صحافت‘‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا اس نے زور سے قہقہہ لگا کر اپنے ساتھیوں کہ یہ خط دکھایا اور کہا ’’لو جی میں وی بابائے صحافت ہو گیا آں‘‘ مذہبی، سماجی اور سیاسی حلقوں میں اس کے ہزاروں مداح تھے۔ خیال ہے اہل خانہ نے اسے موت کے صرف چند گھنٹے بعد اس لئے دفن کرنے کا فیصلہ کیا کہ اس کا کھلا ہوا چہرہ موسم کی سختی میں مرجھا نہ جائے۔ موت نے اسے کیا روپ چڑھایا تھا۔
پچھلے چند ماہ سے اس نے باقاعدگی سے نماز شروع کر رکھی تھی۔ وہ پہلے بھی نماز پڑھتا تھا۔ اس باقاعدگی کی وجہ شاید یہ ہو کہ اس نے اپنے بیمار دل کا پیغام بہت پہلے سن لیا تھا۔ گزشتہ رات جب ہم اسے سپرد خاک کرنے گئے تو اس کا چہرہ زندہ حسنین سے زیادہ تر و تازہ تھا۔ رخصت کرتے وقت مجھے یاد آیا کہ ڈیوٹی ختم کرکے جانے والے ساتھیوں کو وہ گرمجوشی سے ’’سی یو‘‘ کہہ کر ایک طرح کی دعا دیا کرتا تھا کہ اگلے روز ملاقات ہو گی۔ میرا جی چاہا کہ زور سے اسے ’’سی یو‘‘ کہہ کر الوداع کہوں۔ پھر یہ سوچ کر خاموشی سے واپس لوٹ آیا کہ ’’سی یو‘‘ کے ساتھ یہ بھی بتانا پڑے گا۔۔۔ کہاں۔ وہ لوٹ کر تو آ نہیں سکتا اور جہاں چلا گیا ہے وہاں کا تو پتہ بھی کسی کو معلوم نہیں۔
(10جنوری 2003ء)