دربار صحافت

موت کی دہشت گردی….تحریر سید عباس اطہر

موت برحق ہے لیکن طاہر مقبول ملک کے حوالے سے تو موت کو’’ دہشت گرد‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔ خدا جانے وہ اتنی جلدی کیوں مطلوب تھا۔ کوئی دو ماہ پہلے وہ میرے پاس چھٹی کی درخواست لے کر آیا۔ وہ تین ماہ کیلئے امریکہ جانا چاہتا تھا۔ میں نے اسے ایک پرانی کہاوت سنائی ’’اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا‘‘ اور کہا کہ تمہارے فرائض کی نوعیت ایسی ہے کہ شاید لمبی چھٹی نہ مل سکے۔ لیکن چھٹی مل گئی اور وہ امریکہ بھی چلا گیا۔ چند دن پہلے وہ نیو یارک کے ایک سٹور میں خریداری کر رہا تھا کہ اچانک دل کا دورہ پڑا، فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا لیکن جانبر نہ ہو سکا۔ پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ 6 سالہ بیٹا علی طاہر، 9 سالہ بیٹی ماہ نور اور ایک سالہ بچی آئمہ طاہر سوگوار شامل ہیں۔ طاہر مقبول چار، پانچ سال کی عمر میں باپ کی شفقت سے محروم ہو گیا تھا۔ والدہ بھی جلد ہی چل بسیں۔ وہ پھوپھی کے ہاں پلا۔ اس کی موت کے ساتھ بیوی اور تین بچوں پر مشتمل ایک ہنستا بستا خاندان بے موت مر گیا ہے۔ رشتہ دار، دوست احباب اور ادارے ایک حد تک ساتھ دیتے ہیں۔ پھر پس ماندگاں اپنے مسائل سے نبٹنے کیلئے اکیلے رہ جاتے ہیں۔ کوئی ایک ڈیڑھ سال پہلے صحافت میں میرا ایک کولیگ جوانی میں اسی طرح موت کی دہشت گردی کا نشانہ بنا تھا۔ ہم بہت سارے دوست کشکول لے کر کئی دروازوں پر پہنچے اور آخر میں زکوٰۃ کے دفتر کے دروازے پر پہنچ کر خالی ہاتھ لوٹ آئے تھے۔
ہمارا ایمان ہے کہ موت برحق ہے اور اس کا وقت معین ہے لیکن جب موت روزانہ دو وقت کی روٹی کمانے والے گھروں کے سربراہوں، پھولوں جیسے چھوٹے چھوٹے بچوں اور بچیوں پر جھپٹتی ہے تو نجانے کیوں مجھے محسوس ہوتا ہے، جیسے موت کائنات کی سب سے بڑی دہشت گرد ہے جو آنکھیں بند کئے دل پر پتھر رکھ کر آسمانوں سے اتر کر زمین پر دندناتی پھر رہی ہے۔
منگل کے روز لاہور ایئرپورٹ پر دو تابوت آگے پیچھے ایک ہی جہاز سے اترے۔ ایک طاہر مقبول کا دوسرا فاروق مظہر کا تھا۔ فاروق مظہر کو صحافت میں ’’کنگ فاروق‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ وہ ایک زمانے میں پی پی ایل میں میرے کولیگ رہے۔ زندہ دل اور خوش باش آدمی تھے۔ہاکی اور دوسرے کھیلوں کی رپورٹنگ اور تجزیہ نگاری کے علاوہ سرپرستی اور سیاست بھی کرتے تھے مگر محض دل لگی کیلئے کسی معاملے کو زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں بناتے تھے۔ وہ مقررہ عمر گزار چکے تھے جسے ہمارے ملک میں اوسط عمر کہا جاتا ہے۔ بونس کے سالوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ فاروق مظہر سے میری آخری ملاقات تین چار ماہ پہلے لاہور میں ہوئی۔ وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ آفتاب شیر پاؤ کو وزیراعظم کا امیدوار بنا کر میدان عمل میں نکلے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں کہا ’’کمال ہے کہ آپ کھیلوں کے اتنے بڑے ماہر ہو کر لنگڑے گھوڑے (کھلاڑی) پر بھی شرط لگا رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے ایک زور دار قہقہہ لگا کر میرا سوال فضا میں بکھیر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے موت کے فرشتے کو اپنے بونس کے سال ہنستے ہنستے پکڑا دیے ہوں گے۔ نیوزی لینڈ کے دورے کے دوران انہیں پتہ چلا کہ وہ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہیں، جسم کے دوسرے کچھ پرزے بھی خستہ حال ہی تھے مگر وہ اپنے پروگرام کے مطابق لاہور آئے اور پھر امریکہ کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ بحرین میں موت کے فرشتے سے آمنا سامنا ہوا ہو گا اور انہوں نے شکست مان لی۔ فاروق مظہر جیسے لوگوں کے بارے میں ہی کہا گیا ہے؂
بہوتے رون گے دلاں دے جانی
تے ماپے تینوں گھٹ رون گے
(تمہارے دلوں کے جانی زیادہ، ماں باپ کم روئیں گے)
دو ہفتے پہلے میرے ایک شاعر دوست مبارک احمد گھر بیٹھے بیٹھے بڑے اطمینان سے اچانک مر گئے۔ وہ بھی بونس کے سالوں پر جی رہے تھے۔شاعری اور ادب کے ضمن میں اُن کے زیر التوا منصوبے اور پروگرام اُدھورے رہ گئے۔ چند دن پہلے میں، احمد مشتاق اور سلیم شاہد ایک جگہ بیٹھ کر ان کے بارے میں باتیں کرتے رہے اور آخر میں یہ سوچ کر پریشان ہو گئے کہ ان کی موت پر دکھ کا اظہار کرنے کے بجائے ہم تو ان کی زندگی کی باتیں، واقعات اور لطیفے سنا کر ہنس رہے ہیں۔ دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو زندگی اس طرح بسر کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی ان سے اس کے سوا کوئی گلہ نہیں بنتا کہ وہ بتائے بغیر کیوں مر گئے۔
طاہر مقبول ملک کی کہانی میرے مذکورہ بالا دوستوں سے بالکل مختلف ہے۔ وہ عام موت نہیں مرے، موت کی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ بچپن میں پہلی دہشت گردی کے نتیجے میں ماں اور باپ دونوں کے سائے سے محروم ہوئے۔ جوانی میں اپنی بیوی اور بچوں کو زندگی کی دہشت گردی کے سامنے بے سہارا چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔
تدفین کے بعد ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ طاہر مقبول کا جنازہ بڑا بھرپور تھا۔ وہ بڑے خوش قسمت تھے۔ ہر موت پر ہم اس قسم کے رسمی روشن پہلو نکال لیتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے بارے میں بھی جس کے گھر میں ایک بیوہ اور تین معصوم بچے موت سے پوچھ رہے ہیں ’’تم نے ہمارے گھر میں کیا دیکھا تھا؟‘‘ ( 2 مئی 2001ء )