دربار صحافت

مولانا عبدالرحیم اشرفؒ از جمیل اطہر

امریکہ اور بیت اللہ محسود

مولانا عبدالرحیم اشرفؒ از جمیل اطہر

مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کا نام نوکِ قلم پر آتے ہی وطنِ عزیز کی ایک نہایت متحرک، فعال اور دل آویز شخصیت کا پیکر جمیل آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے، جس نے بلاشبہ نصف صدی تک پاکستان کے سیاسی، دینی، طبی اور صحافتی شعبوں میں نہایت مثبت کردار ادا کیا۔ وہ نہ صرف ان شعبوں کے آفاق پر پوری آب و تاب سے جلوہ گر رہے بلکہ ہر کسی سے اپنی بے پایاں صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا۔ وہ اگرچہ جسمانی طور پر زیادہ قد کاٹھ کے مالک نہیں تھے مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قومی زندگی میں اپنی غیر معمولی فعالیت کے باعث ان کا شمار ہماری قد آور قومی و ملّی شخصیات میں ہونے لگا تھا۔ انہوں نے مولانا مودودیؒ کی قیادت میں اسلامی دستور کے نفاذ کی تحریک سے لے کر تحفظِ ختمِ نبوت کی دونوں تحریکوں اور تحریک نظام مصطفیؐ تک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان تحریکوں میں قید و بند کی صعوبتیں بھی نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔
مولانا عبدالرحیم اشرفؒ سے میرا تعارف 1955-56ء میں ہوا جب میں اپنے زمانہ طالب علمی میں ہی خار زارِ صحافت میں قدم رکھ رہا تھا۔ اس وقت بھی وہ ایک عالمِ دین، ایک سیاسی قائد، جماعت اسلامی کے رہنما اور ممتاز صحافی کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ ان کا ذریعہ معاش تو پاکستان بننے سے پہلے ہی یونانی طب کا شعبہ تھا۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے امین پور بازار، فیصل آباد میں اشرف میڈیکل ہال کے نام سے اپنا مطب قائم کیا تھا۔ یہ مطب اس جگہ واقع تھا جہاں اب جامع مسجد اہل حدیث ہے۔ روزنامہ ’’غریب‘‘ (جو اس وقت لائل پور سے شائع ہونے والا سب سے کثیر الاشاعت اور مؤثر روزنامہ تھا، جس کی ادارت کا فریضہ چودھری ریاست علی آزادؒ انجام دیتے تھے، جو نہایت جرأت مند اور دبنگ صحافی تھے) کا دفتر اشرف میڈیکل ہال کے بالکل سامنے سٹیشنری اور کتابوں کی ایک دکان کی بالائی منزل میں واقع تھا اور جہاں اپنی صحافت کے ابتدائی دور میں میرا جانا ہوتا تھا۔
ابتداء میں میرا رجحان اور میلان بائیں بازو کی سیاست اور صحافت کی طرف تھا۔ میں سیاست کے آغاز میں ہی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جو بائیں بازو کی سیاست کے خوگر سیاسی کارکنوں کا اہم مرکز تھا، ترقی پسند اصحاب کے حلقہ میں بیٹھنے لگا تھا۔ جب میں نے اخبارات کے بچوں کے صفحات میں لکھنا شروع کیا تو روزنامہ ’’غریب‘‘ میں بچوں کے صفحہ کے نگران بلند پایہ ترقی پسند شاعر جناب احمد ریاض تھے، جن کا مجموعہ کلام ’’موجِ خون‘‘ ان کی رحلت کے بعد شائع ہوا، وہ روزنامہ ’’غریب‘‘ کے مدیر معاون ہونے کے ساتھ ساتھ لائل پور (اب فیصل آباد) میں روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور کے نمائندے بھی تھے۔ ’’امروز‘‘ کو اس دور میں ترقی پسندوں کی ایک توانا آواز کا مقام حاصل تھا۔ جب میں نے احمد ریاض مرحوم کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بچوں کی ایک تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا تو انہوں نے روزنامہ ’’امروز‘‘ کے اس دور کے ایڈیٹر جناب احمد ندیم قاسمی کے نام ایک خط لکھ کر میرے حوالے کر دیا جس میں مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ’’امروز‘‘ کا نامہ نگار مقرر کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ’’امروز‘‘ کا نامہ نگار اور اس وقت ترقی پسندوں کی سیاسی جماعت آزاد پاکستان پارٹی کا سیکرٹری اطلاعات (اس وقت اسے پروپیگنڈہ سیکرٹری کا نام دیا جاتا تھا) تو بن گیا مگر میرے تایا قاضی نصیرالدین سرہندی مرحوم جو جماعت اسلامی کے رکن تھے، میری سرگرمیوں کے متعلق تشویش میں مبتلا رہنے لگے اور ایک روز انہوں نے مجھے بہت اصرار کے ساتھ کہا ’’میں تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں مگر تم وعدہ کرو کہ میری بات مان لو گے اور انکار نہیں کرو گے‘‘۔ میں اپنے تایا جان کی بہت عزت کرتا تھا اور ان کی کسی بات کا انکار کرنے کی مجھ میں جرأت نہیں تھی، میں نے جب اثبات میں گردن ہلائی تو انہوں نے کہا ’’میری خواہش ہے کہ تم ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جماعت اسلامی کے ترجمان اخبار ’’تسنیم‘‘ کے نامہ نگار کی حیثیت میں کام کرو‘‘۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں روزنامہ ’’امروز‘‘ کا نامہ نگار ہوں اور آزاد پاکستان پارٹی ٹوبہ ٹیک سنگھ کا پروپیگنڈہ سیکرٹری، میں جماعت اسلامی کے اخبار کی نمائندگی کا حق کیسے ادا کر سکوں گا؟ میرا یہ موقف سُن کر میرے تایا جان نے کہا ’’جرائم کی جو وارداتیں ہوتی ہیں اور عدالتیں جو فیصلے کرتی ہیں، کیا ان خبروں کا تعلق کسی خاص جماعت سے ہوتا ہے‘‘؟ میں نے عرض کیا ’’نہیں‘‘۔ تب انہوں نے کہا کہ تم ’’تسنیم‘‘ کے لئے صرف ایسی خبریں ہی بھیجو گے۔ جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کی خبریں جماعت اسلامی کے امیر خود ’’تسنیم‘‘ کو بھیج دیا کریں گے، اس طرح میرے تایا نے مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ’’تسنیم‘‘ کا نامہ نگار مقرر کرا دیا جس کی وجہ سے میں لاہور میں روزنامہ ’’تسنیم‘‘ کے دفتر جانے لگا، جہاں میری ملاقاتیں چیف ایڈیٹر جناب سعید ملک، جو جماعت اسلامی پنجاب کے امیر بھی رہے، ایڈیٹر جناب ارشاد احمد حقانی جو اس وقت جماعتِ اسلامی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات بھی تھے، پبلشر جناب مصطفی صادق اور اسسٹنٹ ایڈیٹر جناب آباد شاہ پوری سے ہونے لگیں، اس دوران ہمارے محلہ کی مسجد، توکلّی مسجد، میں جس کی بنیاد میرے والد محترم قاضی سراج الدین سرہندی نے اس وقت رکھی تھی جب وہ میونسپل کمیٹی ٹوبہ ٹیک سنگھ کے رکن اور بعد ازاں وائس پریذیڈنٹ منتخب ہوئے، جماعت اسلامی ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک اجتماع منعقد ہوا جس میں لائل پور سے مولانا عبدالرحیم اشرفؒ ، چودھری عبدالحمیدؒ خان، جناب چودھری علی احمد خان اور چودھری محمد احمد بھی شریک ہوئے۔ یہ سب جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔ انہوں نے اس اجتماع سے خطاب کیا اور ’’تسنیم‘‘ کے نامہ نگار کی حیثیت سے میرے تایا مجھے بھی اس اجتماع میں لے گئے جہاں مولانا عبدالرحیم اشرفؒ سے میری پہلی بار ملاقات ہوئی۔ جماعت اسلامی کے کارکن اور رہنما اپنے خاص لباس، شلوار قمیض، قمیض پاجامہ، اچکن، شیروانی اور قراقلی ٹوپی کی وجہ سے اپنی امتیازی شناخت رکھتے تھے اور عام لوگوں میں بیٹھے ہوئے اپنی الگ پہچان کے حامل تھے۔ مولانا عبدالرحیم اشرفؒ اپنے مطب اور جماعت اسلامی سے متعلق سرگرمیوں کے علاوہ اس وقت ایک ہفت روزہ ’’المنیر‘‘ بھی شائع کرتے تھے۔ یہ ڈیکلریشن تو چنیوٹ کے ایک صحافی جناب جاوید جوئیہ کے نام تھا مگر مولانا عبدالرحیم اشرفؒ نے یہ ڈیکلریشن کچھ شرائط پر ان سے مستعار لے لیا تھا۔ ہفت روزہ ’’المنیر‘‘ جماعت اسلامی اور اس کے امیر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے فکر و فلسفہ کا ترجمان تھا، لاہور سے ملک نصراللہ خان عزیز کی ادارت میں ہفت روزہ ’’کوثر‘‘ کراچی سے سید اسعد گیلانی کی زیر ادارت ہفت روزہ ’’جہان نو‘‘ اور چودھری غلام محمد کی ملکیت اور جناب نعیم صدیقی کی ادارت میں شائع ہونے والا ماہنامہ ’’چراغ راہ‘‘ اس وقت جماعت اسلامی کے ترجمان جرائد میں نمایاں تھے۔ مولانا مودودیؒ کا اپنا جریدہ ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ تو جماعت اسلامی کے کارکنوں کے لئے فکری غذا مہیا کرنے کا سب سے مؤثر ہتھیار تھا۔ اس کے علاوہ مولانا ماہر القادری ماہنامہ ’’فاران‘‘ کراچی، سید حسن ریاض کا ہفت روزہ ’’مقاصد‘‘ کراچی اور ابو صالح اصلاحی اور بشیر احمد ارشد کی زیر ادارت شائع ہونے والا ماہنامہ ’’یثرب‘‘ لاہور، بھی جماعت اسلامی کے ہم نوا جرائد میں شامل تھے۔ کچھ عرصہ بعد مولانا عبدالرحیم اشرفؒ اور چودھری عبدالحمید خانؒ نے، جو اشرف میڈیکل ہال کو اب اشرف یونانی لیبارٹریز میں تبدیل کر کے کاروباری شراکت دار بھی بن گئے تھے اور یہ دواخانہ ماڈل ٹاؤن لائل پور میں کرایہ کی ایک عمارت میں منتقل ہو چکا تھا، لائل پور سے روزنامہ ’’اعلان‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ روزنامہ ’’اعلان‘‘ کے مالک تو لائل پور کے ایک صحافی اختر رانا (اختر حسین خان رانا) تھے لیکن مولانا عبدالرحیم اشرفؒ نے ایک معاہدہ کے تحت یہ اخبار ان سے حاصل کر لیا اور اختر رانا ’’اعلان‘‘ میں نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دینے لگے۔ اس اخبار کا دفتر کچہری بازار کی گلی وکیلاں میں واقع چودھری عبدالحمید خانؒ کی رہائش گاہ کے ایک یا دو بیرونی کمروں میں قائم کیا گیا۔ اعلان کے عملہ ادارت میں جناب کمال سالار پوری بھی شامل تھے جن کی ذات ایک شاعر، صحافی اور سیاسی کارکن کا حسین امتزاج تھی، جن سے اُسی دور میں راہ و رسم ہوئی، وہ بعد کے سالوں میں جماعت اسلامی کے کسان بورڈ کے سربراہ بھی رہے۔ جب مولانا عبدالرحیم اشرفؒ نے مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں روزنامہ ’’اعلان‘‘ کا نامہ نگار بنایا تو میں اس اخبار کا نیوز ایجنٹ بھی رہا اور ہر صبح لائل پور سے آنے والی ٹرین سے اس کا بنڈل وصول کر کے خریداروں تک پہنچانا بھی میرے فرائض میں شامل تھا۔ میں روزنامہ ’’اعلان‘‘ کے نامہ نگار کی حیثیت سے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے پر گیا۔ شورکوٹ روڈ ریلوے جنکشن سے خانیوال کی طرف جاتے ہوئے، شورکوٹ اور عبدالحکیم ریلوے سٹیشنوں کے درمیان ایک ریلوے سٹیشن سے کچھ فاصلہ پر ایک نہر کے کنارے سیلاب زدہ لوگوں نے بڑی تعداد میں پناہ لے رکھی تھی۔ نہر اور ریلوے سٹیشن کے مابین سیلاب کا پانی تھا۔ خبر کی جستجوکامیرا شوقِ مجھے اس پانی میں لے گیا جس کی گہرائی کا مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا۔ میں ایک دُبلا پتلا پندرہ سال کی عمر کا نامہ نگار، اس پانی میں ڈوبتے ڈوبتے بچا۔ پانی میری قمیض کے سامنے والی جیب تک پہنچ گیا تھا جہاں مجھے اپنی قیمتی متاع، روزنامہ ’’اعلان‘‘ کے نمائندگی کے کارڈ کی حفاظت کی فکر ستار ہی تھی۔ جب میں بمشکل نہر پر پہنچا تو سب سے پہلے میں نے یہ کارڈ ہی جیب سے نکال کر دیکھا جس پر ہاتھ سے لکھی ہوئی عبارت اور چودھری عبدالحمید خان کے دستخطوں کو سیلاب کا پانی متاثر کر چکا تھا۔ مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کے روزنامہ ’’اعلان‘‘ کی یاد تازہ کرنے کے لئے یہ سیلاب زدہ کارڈاب بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
جب 1957ء میں جماعت اسلامی کا سالانہ اجتماع رحیم یار خان کے قریب ماچھی گوٹھ میں منعقد ہوا، جہاں انتخابات میں براہ راست حصہ لینے کے مسئلہ پر جماعت اسلامی کے بعض اکابر نے مولانا مودودیؒ مرحوم کی حکمت عملی سے اختلاف کا اظہار کیا تو میرے تایا جان قاضی نصیرالدین مرحوم کے پاس آنے جانے والے جماعت اسلامی کے ارکان کی گفتگو سے مجھے ان اختلافات کی سُن گُن ملنے لگی۔ ان گفتگوؤں سے ہی پتہ چلا کہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، ڈاکٹر مسعود الدین حسن عثمانیؒ ، مولانا عبدالغفار حسنؒ ، مولانا عبدالرحیم اشرفؒ ، جناب سعید ملکؒ ، جناب ارشاد احمد حقانیؒ اور جناب مصطفی صادق نے انتخابات میں حصہ لینے کی مخالفت کی، لیکن جماعت کے ارکان نے رائے شماری میں واضح اکثریت سے مولانا مودودیؒ کی حکمتِ عملی کی تائید و حمایت کر دی۔ مجھے اس سلسلہ گفتگو سے ہی پتہ چلا کہ جناب ارشاد احمد حقانیؒ نے روزنامہ ’’تسنیم‘‘ کی ادارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے اور ’’تسنیم‘‘ کے عملہ ادارت کے جن ارکان نے اس اجتماع میں مولانا مودودیؒ کی سوچ اور لائحہ عمل سے اختلاف کا اظہار کیا ہے وہ اخبار سے ازخود مستعفی ہو رہے ہیں یا مولانا مودودیؒ انہیں اس بنیاد پر اخبار سے الگ کرنے والے ہیں کہ چونکہ جس پالیسی پر رائے عامہ ہموار کرنے کا فریضہ ان اصحاب نے ادا کرنا ہے اس کی جڑ بنیاد سے انہیں اختلاف ہے اس بنا پر وہ اب ادارت کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے اہل نہیں رہے۔ روزنامہ ’’تسنیم‘‘ کے ناشر اور اسسٹنٹ ایڈیٹر جناب مصطفی صادق بھی ان اصحاب میں شامل تھے جو ’’تسنیم‘‘ سے الگ ہو گئے۔ روزنامہ ’’تسنیم‘‘ کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کے دوران میری جناب ارشاد احمد حقانیؒ اور جناب مصطفی صادق سے دفتر ’’تسنیم‘‘ میں کئی ملاقاتیں ہو چکی تھیں جب میں نے روزنامہ ’’امروز‘‘ میں جماعت اسلامی کے اندر اختلافات کی خبریں اور ارشاد احمد حقانی کے استعفیٰ کی خبریں شائع کیں تو میں مولانا عبدالرحیم اشرفؒ ، ارشاد احمد حقانی اور مصطفی صادق کی توجہ کا مرکز بن گیا اور جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ ’’تسنیم‘‘ سے الگ ہو جانے کے بعد جناب مصطفی صادق، لاہور سے لائل پور منتقل ہو گئے ہیں اور انہوں نے مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کے ہفت روزہ ’’المنیر‘‘ کی ادارت کے فرائض سنبھال لئے ہیں تو میں ان سے ملاقات کے لئے جناح کالونی میں اشرف لیبارٹریز گیا۔ ’’المنیر‘‘ اور ’’المنبر‘‘ کے ضمن میں یہ لطیفہ قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث بنے گا۔ جب کئی سال ’’المنیر‘‘ شائع کرنے کے بعد مولانا عبدالرحیم اشرفؒ ’’المنبر‘‘ کے نام سے اپنے ہفت روزہ کا ڈیکلریشن لینے میں کامیاب ہو گئے تو انہوں نے ’’المنیر‘‘ جاوید جوئیہ کو واپس دے دیا۔ جب ’’المنیر‘‘ دوبارہ جاوید جوئیہ نے خود نکالا تو اس کے پہلے شمارے میں انہوں نے مقالہ خصوصی سپرد قلم کیا جس میں نہایت افسوس کے ساتھ یہ لکھا کہ میں نے مولانا عبدالرحیم اشرف کو ’’المنیر‘‘ دیا تھا۔ انہوں نے اب اپنا ہفت روزہ ’’المنبر‘‘ نکال لیا ہے، گویا ’’المنیر‘‘ کا صرف ایک نقطہ ہی مجھے واپس کیا ہے اور باقی الفاظ ’’المنبر‘‘ کی صورت میں خود رکھ لئے ہیں۔ چند ماہ ہی گزرے تھے جناب مصطفی صادق کو ہفت روزہ ’’المنبر‘‘ میں کام کرتے ہوئے کہ ممتاز صنعت کار سعید سہگل کے رونامہ ’’آفاق‘‘ میں، پہلے بحیثیت سب ایڈیٹر، پھر نیوز ایڈیٹر اور آخر میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنے کی پیش کش ہوئی جو ان کے عزیز دوست جناب زکریا ساجد کی کوشش کا نتیجہ تھی، جو اس وقت روزنامہ ’’آفاق‘‘ لاہور میں نیوز زایڈیٹر تھے (اور کئی سال بعد کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے سربراہ بن کر ریٹائر ہوئے)۔ ’’آفاق‘‘ میں شمولیت کے چند ہفتوں بعد مصطفی صادق صاحب، لائل پور سے ٹوبہ ٹیک سنگھ تشریف لائے، میں میٹرک کا امتحان دے کر رزلٹ کا انتظار کر رہا تھا اور رزلٹ آنے کے بعد گورنمنٹ کالج لائل پور میں داخلہ لینے کا خواہاں تھا۔ مصطفی صادق صاحب میرے دادا قاضی محمد اصغر سرہندی اور میرے والد قاضی سراج الدین سرہندی اور میرے تایا قاضی نصیر الدین سرہندی سے ملے، ہمارے گھر پر ہی قیام کیا اور مجھے تعلیم کے لئے لائل پور آنے کی صورت میں روزنامہ ’’آفاق‘‘ میں سب ایڈیٹر یا سٹاف رپورٹر کی حیثیت سے کام کرنے کی دعوت دی۔
اس طول طویل تمہید کا، مدعا یہ ہے کہ مصطفی صادق چونکہ ہفت روزہ ’’المنبر‘‘ مرتب کر رہے تھے اور مئی 1958ء میں یہ خاکسار بھی روزنامہ ’’آفاق‘‘ میں ان کے ساتھ جا ملا تو یہیں سے مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کے ساتھ گہرے رشتوں کا آغاز ہوا۔ انہوں نے مجھ ناچیز کی بے حدو حساب حوصلہ افزائی کی۔ مجھے ہفت روزہ ’’المنبر‘‘ کی ادارت کا کام سونپ دیا اور اسی پر اکتفا نہیں کیا، میں کافی عرصہ تک ان کے خالص فنی جریدہ، ماہنامہ ’’راہنمائے صحت‘‘ کا ایڈیٹر بھی رہا۔ میری ناز برادری کے لئے انہوں نے کرائے کے انہی دو کمروں میں سے ایک کو میرا دفتر بنا دیا جہاں میں رہائش پذیر تھا، یہ جگہ روزنامہ ’’آفاق‘‘ کے دفتر کے بالکل ساتھ تھی۔ آفاق کا دفتر 17 جناح کالونی میں تھا اور مصطفی صادق صاحب اور میری رہائش 19 جناح کالونی میں تھی۔ وہ اوپر کے حصے میں رہتے تھے جو ایک کمرے پر مشتمل تھا اور دوسرا کمرہ جو دراصل برآمدہ تھا، چقوں کے ذریعے بنایا گیا تھا۔ میری رہائش زیریں حصے میں تھی جہاں میرے والدین بھی ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور آ کر میرے ساتھ ہی سکونت پذیر تھے۔ میں گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا۔ رات کو ’’آفاق‘‘ میں کام کرتا تھا اور اب دن کا کچھ وقت ’’المنبر‘‘ اور ’’راہنمائے صحت‘‘ کے لئے دینے لگا۔ مولانا عبدالرحیم اشرفؒ ایک نہایت شائستہ اور نرم خُو انسان تھے، وہ مجھ سے میرے والد کی طرح ہی شفقت و محبت کا برتاؤ کرتے اور والد صاحب کا کاروبار چونکہ ٹوبہ ٹیک سنگھ اور گوجرہ میں خسارے کا شکار ہو چکا تھا، اس لئے وہ نہ صرف میری مالی ضروریات کا خیال رکھتے بلکہ انہوں نے میرے والد صاحب کو بھی اشرف لیبارٹریز میں جنرل منیجر کی حیثیت سے کام کرنے پر آمادہ کر لیا اور میرا چھوٹا بھائی معراج ظفر بھی والد صاحب کے ساتھ اشرف لیبارٹریز میں ہی کام کرنے لگا۔ دو سال بعد دماغی عارضہ کے باعث وہ انتقال کر گیا، جس کی رحلت کے صدمہ کے باعث والد صاحب بھی اشرف لیبارٹریز چھوڑ کو واپس ٹوبہ ٹیک سنگھ چلے گئے جہاں انہوں نے کئی سال مالی پریشانی میں گزارے تا آنکہ میرے چچا قاضی محمد عبداللہ، انہیں جڑانوالہ اپنی فلور ملز میں لے گئے جو انہوں نے پٹہ پر لے رکھی تھی اور بعد ازاں وہ اکبر فلور ملز، نشاط آباد لائل پور میں آ گئے جو میرے چچا صاحب نے خرید لی تھی۔
1959ء میں روزنامہ ’’آفاق‘‘ کی انتظامیہ نے جناب ملک مظفر احسانی کو روزنامہ ’’آفاق‘‘ لائل پور کا ایڈیٹر انچارج مقرر کر دیا۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے نام تو اب بھی جناب مصطفی صادق کا چھپ رہا تھا لیکن انتظامیہ کی کوشش تھی کہ مظفر احسانی اخبار کا پُورا کنٹرول سنبھال لیں۔ میں ان دنوں رات کو سب ایڈیٹر کا کام کرنے کے علاوہ روزنامہ ’’آفاق‘‘ کے آخری صفحہ پر ’’گھنٹہ گھر سے گھنٹہ گھر تک‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھتا تھا۔ کالم کا لفظ تو اُردو صحافت میں بہت بعد میں آیا، اس دور میں اسے ڈائری کا نام دیا جاتا تھا۔ مظفر احسانی نے ایک روز شائع ہونے والی ڈائری کے بعض مندرجات پر اعتراض کیا اور مجھے اس کے قانونی نتائج سے ڈرانے کی کوشش کی، جس پر میں نے انہیں کہا کہ آپ کا نام تو اخبار پر شائع نہیں ہوتا، پرنٹ لائن میں مصطفی صادق کا نام چھپتا ہے اور ڈائری پر میرا نام۔ قانونی گرفت ہو گی تو ہم دونوں پر ہو گی۔ آپ اس اندیشہ میں کیوں مبتلا ہو رہے ہیں؟ قارئین کو یاد دلاتا چلوں کہ یہ مظفر احسانی وہی صاحب تھے جنہیں ممتاز دولتانہ کی حکومت نے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ پر پابندی عائد کر کے، کئی روز بعد اس کا ڈیکلریشن انہیں دے دیا تھا اور جب دولتانہ صاحب نے ’’نوائے وقت‘‘ سے پابندی اٹھائی تو حمید نظامی صاحب نے کچھ دے دلا کر ان سے دوبارہ ڈیکلریشن حاصل کیا تھا۔ مظفر احسانی صاحب سے گفتگو میں بدمزگی بڑھتی چلی گئی اور میں نے کچھ دن پہلے ان کے ارادے بھانپ کر چند فقروں پر مشتمل استعفیٰ لکھ کر اپنی جیب میں رکھ لیا تھا جو میں نے جیب سے نکالا اور تاریخ لکھ کر ملک مظفر احسانی صاحب کو تھما دیا، یہ استعفیٰ دے کر میں -17جناح کالونی سے نکل کر اپنی قیام گاہ -19جناح کالونی پہنچا ہی تھا کہ ’’آفاق‘‘ کا چپڑاسی میرے پیچھے پیچھے، استعفیٰ کی منظوری کا خط لے کر میرے پاس پہنچ گیا۔ اس طرح ’’آفاق‘‘ میں میری ملازمت ختم ہو گئی۔
میری ’’آفاق‘‘ سے علیحدگی کے بعد مصطفی صادق صاحب کئی ماہ وہیں رہے، میں نے اس دوران پاک نیوز سروس کے نام پر مقامی اخبارات کو لائل پور کی خبریں فراہم کیں۔ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور کے بیورو چیف کے طور پر تین ماہ آزمائشی طور پر کام کیا۔ ڈیلی بزنس رپورٹ جو ایک تجارتی اخبار کی بجائے سیاسی اخبار کے طور پر صبح شائع ہونے لگا تھا، میں بطور نیوز ایڈیٹر کچھ وقت گزارا۔ چند ماہ بعد مصطفی صادق بھی ’’آفاق‘‘ سے الگ ہو کر ’’قافلہ سخت جاں‘‘ میں شامل ہو گئے۔ مقامی اخبارات ہماری خبر ایجنسی کے سب سے بڑے خریدار تھے مگر ماہانہ معاوضہ بروقت ادا نہیں کرتے تھے۔ یہاں بھی مولانا عبدالرحیم اشرفؒ ہماری مدد کو آ گئے۔ اشرف لیبارٹریز مقامی اور قومی اخبارات میں اپنے دواخانہ کے اشتہارات دیتی تھی۔ ہم نے مولانا سے درخواست کی کہ آپ کے اشتہارات کی ڈیزائننگ ہم کریں گے، اشتہارات آپ پاک نیوز سروس کے ذریعے جاری کریں، ہم یہ اشتہارات اخبارات میں چھپوائیں گے جنہیں ادائیگی اپنی نیوز سروس کے بل کی رقم منہا کر کے کریں گے۔ اس طرح ہمیں ادائیگی بروقت ہونے لگی، نہ صرف پاک نیوز سروس کو استحکام ملا بلکہ ہم نے خبر ایجنسی اور اشتہارات کے شعبوں کو الگ الگ کر دیا اور اشتہارات کے شعبے کا نام پاک ایڈورٹائزرز رکھ دیا گیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کوہ نور ٹیکسٹائل ملز کے سوا لائل پور کی تمام بڑی بڑی ملیں ہماری ایجنسی کے ذریعے اشتہارات چھپوانے لگیں۔
مولانا عبدالرحیم اشرفؒ سے شب و روز تعلق گہرا ہوتا چلا گیا، ہم دن میں جامع مسجد جناح کالونی کے سامنے واقع اشرف لیبارٹریز میں چلے جاتے اور کئی کئی گھنٹے مولانا کے ساتھ گزارتے۔ مولانا کے پاس مریضوں کی آمدورفت ہی کچھ کم نہ ہوتی تھی، علماء کرام، سیاسی کارکنوں، سماجی و دینی جماعتوں کے قائدین اور اخبار نویسوں کا، مولانا کے ہاں تانتا بندھا رہتا، چائے کے وقت چائے، کھانے کے وقت کھانا اور گفتگو کا سلسلہ تو کبھی نہ ختم ہونے والا، پھر نماز مغرب یا نماز عشاء کے بعد جناح کالونی میں ہی ان کے گھر پر حاضری، وہاں بھی کھانا اور چائے کے کئی کئی دور ’’المنبر‘‘ اور ’’راہنمائے صحت‘‘ کو اور زیادہ معیاری بنانے پر بات چیت، کبھی کبھی مولانا زیادہ ہی اچھے موڈ میں ہوتے تو ہمیں نماز عشاء کے بعد گھنٹہ گھر میں، بھوانہ بازار اور امین پور بازار کے سنگھم پر واقع کشمیر ہوٹل میں لے جاتے اور مرغ و ماہی سے ہماری تواضع کی جاتی۔ سچ پوچھیں تو مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کے دستر خواں جیسا لُطف پھر کبھی نہ آیا۔ بڑے نامور علماء اور اہلِ سیاست ان کے ہاں کھانے پر مدعو ہوتے۔ یہ بھی ان کی غیر معمولی شفقت و اخلاص ہی تھا جس کی وجہ سے اس عاجز کو اپنے دور کی برگزیدہ شخصیتوں کی صحبت میں بیٹھنے اور ان کے چشمۂ فیض سے استفادہ کا موقع ملتا رہا۔ مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کی وساطت سے جن بڑی شخصیتوں سے ملاقات کا شرف حاصل رہا، ان میں مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ (علی میاں)، مولانا عتیق الرحمن سنبھلی مدیر الفرقان لکھنؤ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ مولانا عبدالجبار غازیؒ شیخ سلطان احمد، مولانا مفتی زین العابدینؒ ، ڈاکٹر اسرار احمد، مفتی سیاح الدین کاکا خیلؒ ، مولانا تاج محمودؒ ، مولانا عبدالغفار حسنؒ ، پروفیسر مرزا محمد منورؒ ، پروفیسر سید کرامت حسین جعفریؒ ، حکیم سلطان احمد داؤدیؒ ، چودھری محمد افضل چیمہؒ ، (سابق سینئر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی)، خان شیریں گُل خانؒ (صدر انجمن اصلاح معاشرہ)، حکیم یوسف حسنؒ (سابق ایڈیٹر ماہنامہ نیرنگِ خیال) اورحکیم عبداللہ خان نصر جیسی نادر روزگار شخصیتیں شامل تھیں۔ ان شخصیتوں میں ایک بابرکت نام کا ذکر سب سے پہلے ہونا چاہئے تھا اور وہ تھے حاجی برکت علیؒ (جنہیں حکیم صاحبؒ ، مولوی برکت علیؒ کے نام سے یاد کرتے تھے کیونکہ وہ قیام پاکستان کے فوری بعد جماعت اسلامی میں شامل ہوئے اور مولوی برکت علیؒ کہلائے اور فریضۂ حج کی سعادت حاصل ہونے پر اپنے احباب میں حاجی برکت علیؒ کے نام سے معروف ہوئے)، مولانا عبدالرحیم اشرفؒ اور حاجی برکت علیؒ باہم دوستی اور اخوت کے لازوال رشتوں میں منسلک تھے، وہ لاہور میں شاہ ابو المعالی روڈ پر، ظہیر کین ہاؤس کے نام سے کین تیار اور فروخت کرنے کا کاروبار کرتے تھے۔ مولانا عبدالرحیم اشرفؒ جب لاہور جاتے تو حاجی صاحب کی دکان کے قریب واقع لاہور ہوٹل میں قیام کرتے اور جب 1965ء میں کوچہ اسمعٰیل حسین، دل محمد روڈ پر ان کا اپنا مکان بن گیا تو مولاناؒ ان کے مکان پر ہی قیام کرنے لگے۔ حُسنِ اتفاق یہ ہوا کہ جب مصطفی صادق صاحب اور اس خاکسار نے اپریل 1965ء میں لاہور سے شام کا اخبار روزنامہ ’’وفاق‘‘ شروع کیا، تو ہم دونوں نے بھی ان کے مکان کے ایک حصے میں ڈیرے ڈالے اور کئی سال تک ان کی سرپرستی اور ہمسائیگی کی برکات سے فیض یاب ہوتے رہے۔ ہمارے لائل پور کے قیام کے دوران حاجی برکت علیؒ ہفتہ میں ایک دوبار وہاں ضرور آتے، ان کا قیام مولانا اشرفؒ کے ہاں ہی ہوتا اور وہ ان کے ذاتی اور کاروباری معاملوں میں ہی مشیر نہیں تھے بلکہ ان کے سیاسی معاملوں میں بھی ان کے بہترین مشیر رہے۔
مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کی زندگی پر قلم اٹھایا ہے تو موضوعات کا چمنستان کِھل رہا ہے۔ وہ جماعت اسلامی کے ممتاز قائدین میں شمار ہوتے تھے مگر انتخابی سیاست میں حصہ لینے پر انہیں مولانا مودودیؒ کی رائے اور حکمتِ عملی سے اختلاف ہو گیا۔ پھر مودودیؒ صاحب سے اختلاف کرنے والے ان کے گرد جمع ہونے لگے۔ بعض اصحاب کی رائے تھی کہ ایک نئی جماعت تشکیل دی جائے اور بعض کا خیال تھاکہ جماعت اسلامی سے الگ ہونے والوں کو اب کسی جماعت کے قیام کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہئے اور اپنی ساری توجہ تعلیم و تدریس کے شعبے پر مرکوز کرنی چاہئے۔ مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کا ہفت روزہ ’’المنیر‘‘ اور بعد میں ہفت روزہ ’’المنبر‘‘ ان کے ان فکر و فلسفہ کے آئینہ دار رہے۔ مولانا عبدالرحیم اشرفؒ نے جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ کی بنیاد رکھی ابتداء میں اس کا کام جناح کالونی کی ایک کوٹھی کے ایک دو کمروں میں ہوا۔ جماعت اسلامی سے علیٰحدگی اختیار کرنے والی ممتاز علمی شخصیت حضرت مولانا عبدالغفار حسنؒ کو اس کی سربراہی کا فریضہ سونپا گیا جو بڑی لگن سے یہ ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ بعد ازاں انہیں مدینہ یونیورسٹی میں حدیث کی تدریس کی پیش کش ہوئی جو انہوں نے قبول کر لی۔ مولانا اشرفؒ نے طب کی تعلیم کے لئے بھی جامعہ طبیہ اسلامیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اب ماشاء اللہ یہ دونوں ادارے سرگودھا روڈ پر اپنی عمارتوں میں منتقل ہو چکے ہیں اور تعلیم کے ان چشموں سے ہر سال سینکڑوں نوجوان فیض یاب ہو رہے ہیں۔ یہ وہ صدقۂ جاریہ ہے جو انشاء اللہ ان کے درجات کی بلندی اور مغفرت و بخشش کا ذریعہ ثابت ہو گا۔
روزنامہ ’’آفاق‘‘ سے الگ ہو جانے کے بعد مصطفی صادق صاحب اور خاکسار نے پاک نیوز سروس اور پاک ایڈورٹائزرز دو ادارے قائم کئے۔ پاک ایڈور ٹائزرز لائل پور کی اہم اشتہاری ایجنسی بن کر ابھری۔ ہم نے دوسرے اخبار و جرائد کی طرح آغا شورش کاشمیریؒ کے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ میں بھی لائل پور کے صنعتی و تجارتی اداروں کے اشتہارات شائع کرائے۔ ان دنوں میں میرا قلمی نام شورش پاکستانی تھا۔ آغا صاحب نے اپنے ہفت روزہ میں مجھے لائل پور میں ’’چٹان‘‘ کا نمائندہ مقرر کرنے کا اشتہار بھی شائع کیا۔
ہم نے 25 دسمبر 1959ء سے ہفت روزہ ’’وفاق‘‘ کے اجراء کا فیصلہ کیا۔ اس کا اشتہار ’’نوائے وقت‘‘ کے صفحۂ اوّل پر شائع ہوا۔ اشتہار میں یہ بات بھی شامل تھی کہ یہ ہفت روزہ مصطفی صادق اور شورش پاکستانی کی زیر ادارت شائع ہو گا۔ یہ اشتہار شائع ہی ہوا تھا کہ ہمیں آغا شورش کاشمیریؒ کی برہمی اور ناراضی کی خبریں ملنے لگیں۔ سب سے پہلے یہ خبر ممتاز شاعر جناب حافظ لدھیانویؒ کے ذریعے ہمیں ملی، جو آغا صاحب سے ملاقات کے لئے ’’چٹان‘‘ کے دفتر میں گئے تھے۔ پھر یہ کوئی خفیہ خبر نہ رہی اور آغا صاحب نے ’’چٹان‘‘ میں ایک شذرہ ’’لائل پور میں جعلی شورش‘‘ کے نام سے لکھ مارا۔ یہ شذرہ شائع ہونے کے بعد ہمارے حلقہ احباب میں یہ ایک اہم موضوع بن گیا۔ مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کے گھر پر نماز عشاء کے بعد ہماری حاضری روز کا معمول تھا۔ اس شب جب ’’چٹان‘‘ میں یہ شذرہ شائع ہوا، مولانا کے ساتھ نشست میں یہ موضوع بھی زیر غور آیا۔ مولانا کی رائے تھی کہ مجھے اپنا نام تبدیل کر لینا چاہئے۔ میرا خیال تھا کہ اگرچہ میرے والدین نے میرا نام تاج الدین رکھا تھا مگر جب 1953ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ ریلوے سٹیشن پر ایک اجتماع میں قادیانیوں کے خلاف ایک نظم پڑھنے پر مجھے گرفتار کیا گیا تو لوگوں نے مجھے شورش کہنا شروع کر دیا۔ میں نے پہلے تاج شورش اور پھر شورش پاکستانی کے نام سے سیاسی اور صحافتی میدان میں کام کیا، اس طرح 1953ء سے 1959ء تک میں نے جو نام کمایا وہ ضائع ہو جائے گا اور مجھے عملی زندگی میں نئے نام سے ازسرنو جدوجہد کا آغاز کرنا ہو گا، مگر آغا شورش کاشمیری کی ناراضی کے پیش نظر مولانا اشرفؒ کی رائے ماننے کا ہی فیصلہ ہوا۔ اس نشست میں انہوں نے شورش پاکستانی کی بجائے جمیل اطہر کا نام تجویز کیا اور اگلے روز شورش پاکستانی کے نام سے سیاست و صحافت کی دنیا میں چھ سال متعارف رہنے کے بعد شورش پاکستانی ہمیشہ کے لئے پسِ منظر میں چلا گیا اور جمیل اطہر اُفقِ صحافت پر نمودار ہوا۔ یہ نام مولانا عبدالرحیم اشرفؒ نے عطا کیا۔ اب ’’وفاق‘‘ کی پیشانی پر ادارۂ تحریر مصطفی صادق، جمیل اطہر کے الفاظ درج تھے۔
1962ء میں ہم نے ہفت روزہ ’’وفاق‘‘ کو روزانہ اخبار بنانے کا فیصلہ کیا۔ حقیقت میں یہ خواہش تو اس دن سے ہی موجود تھی جب ہم روزنامہ ’’آفاق‘‘ سے الگ ہوئے تھے اور ہم نے ڈیکلریشن کے لئے درخواست بھی روزنامے کے لئے ہی دی تھی، مگر یہ ایوب خان کا دور تھا اور ڈیکلریشن کا حصول قریب قریب ناممکن۔۔۔ مگر اتفاق یہ ہوا کہ پشتو زبان کے مشہور شاعر جناب فضل حق شیدا، اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن کر پریس لاز برانچ میں آ گئے۔ اس وقت صدر ایوب خان نیا آئین نافذ کرنے والے تھے۔ مصطفی صادق پریس لاز برانچ میں گئے تو شیدا صاحب نے سوال کیا کہ اگر آپ کو ’’وفاق‘‘ لائل پور سے سرگودھا منتقل کرنے کی اجازت دے دی جائے تو نئے آئین کے نفاذ پر آپ اپنے اخبار میں کیا لکھیں گے؟ مصطفی صادق نے فوراً جواب دیا ’’اگر یہ آئین کتاب و سُنت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہوا تو ہم اس کی مخالفت کریں گے‘‘۔ شیدا صاحب ذہنی طور پر ایوبی آمریت کے خلاف تھے، انہوں نے یہ جواب سنتے ہی ’’وفاق‘‘ کو سرگودھا سے شائع کرنے کے اجازت نامہ پر دستخط کر دیئے ۔
مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کو قادیانیت کے بڑھتے ہوئے اثرو ونفوذ پر ہمیشہ تشویش رہی، انہوں نے فتنۂ قادیانیت کی سرکوبی کے لئے عمر بھر اَن تھک کام کیا۔ انہوں نے 1953ء کی تحریک تحفظِ ختمِ نبوتؐ میں جیل بھی کاٹی اور قادیانیت کے خلاف کتابچے اور کتابیں بھی سپردِ قلم کیں۔ وہ اپنے جرائد کے ذریعے قادیانیت کے سربستہ رازوں کو بے نقاب کرنے کے لئے سینہ سپر رہے، انہوں نے اس مقصد کے لئے علماء کو بیدار اور منظّم کرنے کے لئے بھی دن رات کام کیا۔ جب جنرل محمد ضیاء الحقؒ اقتدار میں آئے تو انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائی گئی تحریک نظامِ مصطفی کے اثرات کے تحت علماء سے خصوصی رابطوں کا اہتمام کیا۔ ان علماء کرام میں جن کا جنرل محمد ضیاء الحق سے قریبی رابطہ استوار ہوا۔ حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ اور مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کے اسماء گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ مولانا عبدالرحیم اشرفؒ نے صدر ضیاء الحق سے قریبی تعلق کو قادیانیوں کے خلاف اس تاریخی فیصلہ کے مابعد معاملات کو قانونی شکل دینے کے لئے استعمال کیا جو جناب ذوالفقار علی بھٹو نے نہ چاہتے ہوئے شدید عوامی دباؤ پر کئے تھے اور جن کے تحت سوادِ اعظم کا یہ تاریخی مطالبہ تسلیم کر لیا گیا تھا کہ احمدی خواہ وہ قادیانی ہوں یا لاہوری، غیر مسلم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ برصغیر کے علماء اور دینی جماعتوں کے رہنماؤں نے یہ مطالبہ منوانے کے لئے تاریخ ساز جدوجہد کی تھی، اس جدوجہد کی آخری منزل میں مولانا عبدالرحیم اشرفؒ نے مولانا مفتی زین العابدینؒ سے مل کر صدر ضیاء الحقؒ کو نہایت اہم اقدامات پر آمادہ کیا، جن کے نتیجے میں قادیانیت کے فروغ اور نشوونما کے کئی ایسے راستے جو کُھلے رہ گئے تھے، بند کر دیئے گئے۔
مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کی قائدانہ بصیرت و فراست اور اصلاحِ معاشرہ کے نصب العین سے ان کی وابستگی کی یُوں تو بہت سی مثالیں جن کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے، مگر 1960ء میں جب گلی وکیلاں کچہری بازار سے دو نوجوان لڑکیوں کو سکول سے گھر آتے ہوئے اغوا کر لیا گیا تو ان کی بازیابی کے لئے شہر میں ایک زبردست تحریک چلائی گئی اور اس مقصد کے لئے انجمن اصلاحِ معاشرہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس تحریک کے دوران شہر کے ایک تاجر، خان شیریں گل خانؒ جو صوبہ سرحد کے رہنے والے تھے اور لائل پور میں آ کر آباد ہوئے تھے، ایک بڑی جاندار سیاسی و سماجی شخصیت کے طور پر اُبھرے۔ یہ اغواء شدہ بچیاں اس تحریک کے نتیجے میں بازیاب ہوئیں۔ مولانا مفتی زین العابدینؒ اور خان شیریں گل خان دونوں ہی اس تحریک کے نتیجے میں لائل پور کے اُفق پر آفتاب بن کر ابھرے۔ اس تحریک میں کلیدی کردار مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کا تھا۔ پھر اسی انجمن اصلاحِ معاشرہ نے چنیوٹ بازار اور امین پور بازار کے مابین گول بازار کو بازارِ گناہ سے پاک کرنے کا بیڑہ اُٹھایا، یہ تحریک بھی اپنے قائدین کے خلوصِ نیت کی بدولت کامیابی سے سرفراز ہوئی۔ شہر کے مرکز سے یہ بازارِ گناہ اس طرح ختم ہوا کہ وہاں رہنے والی عورتوں کے لئے باعزت رشتے تلاش کئے گئے اور انہیں انجمن اصلاحِ معاشرہ کے اکابرین نے باپ اور بھائی بن کر پیا گھر رخصت کیا۔ اس گول بازار کو پاک بازار کا نام دیا گیا۔ اس اصلاحی کام میں بھی مولانا عبدالرحیم اشرفؒ بہت پیش پیش رہے۔
جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے، روزنامہ ’’وفاق‘‘ کے اجراء میں مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کی طرف سے اخباری کاغذ مہیا کرنے کی پیش کش کا بھی دخل تھا۔ اخبار جاری ہوئے ابھی کچھ ہی عرصہ ہُوا تھا کہ ادارہ شدید مالی بحران کی لپیٹ میں آ گیا۔ اخبار کو زندہ رکھنے کی کوشش میں پاک نیوز سروس اور پاک ایڈورٹائزرز کا کام بالکل ختم ہو کر رہ گیا۔ پرانے مقامی روزناموں کے مالکوں اور مدیروں کی طرف سے شدید مخالفت اور پرنٹنگ پریس کے مسلسل عدم تعاون کے باعث لائل پور سے اخبار نکالتے رہنا قریب قریب ناممکن ہو گیا۔ ادھر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مولاناؒ اعتکاف میں بیٹھ گئے اور ہم نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ حالتِ اعتکاف میں ہم نیوز پرنٹ کے حصول کے لئے ان کی یکسوئی میں مخل ہوں۔ حالات سے پریشان ہو کر رمضان کے آخری دنوں میں ایک شب ہم نے لائل پور سے نقل مکانی کر کے سرگودھا سے اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد سے مصطفی صادق صاحب اور میں اگلے ہی دن سرگودھا چلے گئے جہاں مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کے پوتوں نے ثنائی برقی پریس میں ’’وفاق‘‘ چھاپنے پر خوش دلانہ آمادگی ظاہر کی اور سرگودھا کے مسلم لیگی رہنما اور سابق رکن پنجاب اسمبلی قاضی مرید احمد نے دفتر کے لئے سیٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا میں اپنی زیرِ تعمیر کوٹھی ہمیں کسی کرایہ کے بغیر دینے کی فراخدلانہ پیش کش کی، جسے ہم نے قبول کر لیا۔ سرگودھا منتقلی کا اجازت نامہ ملتے ہی ہم نے اپنے ساتھی کارکنوں کو اعتماد میں لیا جو سب کے سب ہمارے ساتھ لائل پور سے سرگودھا جانے کو تیار تھے۔ ایک ٹرک میں دفتر اور گھر کا سارا سامان لاد دیا گیا اور ’’وفاق‘‘ کے مالکوں اور کارکنوں پر مشتمل پُوری جماعت، سرگودھا سے پہلا روزانہ اخبار نکالنے کے لئے لائل پور سے سرگودھا منتقل ہو گئی۔ ہم اس جبری منتقلی کا سارا بوجھ آنے والے دَور میں ہلکے پُھلکے انداز میں مولانا عبدالرحیم اشرفؒ پر ڈالتے رہے کہ آپ کے اعتکاف میں بیٹھنے کی وجہ سے ہمیں وفاق کو لائل پور سے سرگودھا لے جانے کا فیصلہ کرنا پڑا، کیونکہ اخبار کے لئے نیوز پرنٹ کی بہم رسانی ممکن نہ رہی تھی۔
1962ء سے 1965ء تک ہم ’’وفاق‘‘ سرگودھا کی اشاعت کے سلسلے میں سرگودھا میں اقامت پذیر ہوئے۔ اس دوران ہم تواتر کے ساتھ لائل پور جاتے رہے اور مولانا عبدالرحیم اشرفؒ سے ہمارے رابطے جاری رہے۔ 1965ء میں ہم نے وفاق کا ایک ایڈیشن لاہور سے نکالا، اتفاق دیکھئے کہ وفاق کا دفتر آغا شورش کاشمیریؒ کی ’’چٹان‘‘ بلڈنگ کے بالائی حصے میں قائم ہوا اور اس سارے عرصہ میں آغا صاحب سے بہت اچھا تعلق رہا۔ جب جنگِ ستمبر کے بعد مغربی پاکستان کے گورنر جنرل (ر) محمد موسیٰ نے آغا شورش کاشمیریؒ کی گرفتاری کے احکام اس وقت جاری کئے جب ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر آغا صاحب کے رزمیہ نغمے گونج رہے تھے تو ان کی رہائی کی تحریک میں بھی ہم پیش پیش رہے۔ لاہور کے تمام ایڈیٹروں کی طرف سے آغا شورش کاشمیریؒ کی رہائی کی اپیل پر جناب مصطفی صادق نے دستخط کرائے۔ یہ اپیل اخبارات میں شائع ہونے کے بعد ہی آغا صاحب کی رہائی ممکن ہوئی۔ ان کی رہائی پر شیزان ہوٹل میں استقبالیہ تقریب کا اہتمام بھی ادارہ ’’وفاق‘‘ کی طرف سے ہوا۔ اس طرح ہفت روزہ ’’وفاق‘‘ کے اجراء کے موقع پر شورش پاکستانی کے نام سے آغا صاحب نے جو بدمزگی پیدا کی تھی، ’’چٹان‘‘ بلڈنگ میں کئی سال قیام کے دوران اس کا تذکرہ تک نہ ہوا اور ہم بہت خوشگوار فضا میں 1969ء میں ’’چٹان‘‘ بلڈنگ سے رخصت ہو کر لاہور ہوٹل کے سامنے ایک عمارت میں منتقل ہو گئے۔
مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کا لاہور میں قیام ’’لاہور ہوٹل‘‘ میں ہوتا تھا۔ 1964ء میں جب میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور سے وابستہ ہوا تو رہائش کے لئے میں نے لاہور ہوٹل میں ہی ایک کمرہ نما کوٹھڑی تین روپے روزانہ (90 روپے ماہانہ) کرایہ پر حاصل کی۔ اس وقت میری تنخواہ تین سو روپے ماہانہ تھی۔ جب مولاناؒ لاہور آتے تو ان کے ساتھ ملاقاتیں رہتیں اور ان کے پاس آنے والی ممتاز شخصیات سے بھی راہ و رسم پیدا ہو جاتی۔ اُس زمانے میں میری صحت کی حالت اچھی نہیں تھی۔ نزلہ، زکام، کھانسی کا مریض، دُبلا پتلا، دھان پان، ہوا کے ایک جھونکے سے ہی گر جانے کا اندیشہ۔ مولانا عبدالرحیم اشرفؒ میرے محسن، میرے مربی، میری صحت کی اس ابتری پر فکر مند اور پریشان رہتے۔ کبھی ایک دوائی، کبھی دوسری دوائی، بعض اوقات دماغ لکھنے پڑھنے کے کسی کام پر آمادہ نہ ہوتا تو وہ ’’دماغ افروز‘‘ ایک ٹانک عطا فرماتے، خدا گواہ ہے کہ ’’المنبر‘‘ اور ’’رہنمائے صحت‘‘ کے دورِ ادارت میں میری کچھ کام کی تحریریں مولاناؒ کی طبی رہنمائی اور نگہداشت کی مرہونِ احسان تھیں۔ ’’وفاق‘‘ کے زمانۂ ادارت میں بھی وہ مسلسل میری ضرورت کے حساب سے ادویات بھیجتے رہتے تھے۔
مجھے ساری عمر اپنی نالائقیوں اور کوتاہیوں کا احساس رہا، حقیقت تو یہی ہے کہ میں کسی کام کے لائق نہ تھا، زیادہ سے زیادہ کسی اخبار کے دفتر میں چپڑاسی یا کلرک بھرتی ہو جاتا یا کسی سیاست دان اور ایڈیٹر کاجھولی بردار بن کر رہ جاتا، مگر مولانا عبدالرحیم اشرفؒ اور جناب مصطفی صادق نے مجھے اٹھارہ سال کی عمر میں ایڈیٹر بنا دیا۔ ان جیسے بزرگوں کی مجلس میں شریک ہونے کے باعث مجلس کے آداب اور گفتگو سننے اور کرنے کا قرینہ اور سلیقہ سیکھا، ان سے شعور حاصل کیا، آگہی سے آشنائی ہوئی اور دانش و بصیرت رکھنے والوں کی مجلس میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی۔
مولانا عبدالرحیم اشرفؒ فکری، نظریاتی اور علمی اعتبار سے ایک نہایت پختہ شخص تھے۔ انہوں نے اپنے لئے جو راہ منتخب کی، اس پر پُوری استقامت اور ثابت قدمی سے جمے رہے۔ انہوں نے تحفظِ ختمِ نبوت کے لئے شب و روز کام کیا اور اس راہ میں کسی خوف اور لالچ کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیا۔ منشی محلّہ کی مسجد میں خطبۂ جمعہ ہو یا ’’المنیر‘‘ اور ’’المنبر‘‘ کے صفحات پر اظہارِ خیال، ربوہ کو چناب نگر قرار دینے کی جدوجہد ہو یا قادیانیوں کو اسلامی شعائر کے استعمال سے روکنے کی آئینی جدوجہد ہو، چنیوٹ میں سالانہ تحفظِ ختمِ نبوت کانفرنس ہو یا ملک کے کسی حصے میں ختمِ نبوت کی حفاظت کے نام پر ہونے والی کانفرنس یا جلسہ، پھر لائل پور کو شاہ فیصل کے نام سے منسوب کر کے اس کا نام فیصل آباد رکھنے کا مسئلہ، مولانا عبدالرحیم اشرفؒ ان سب محاذوں پر سرگرم عمل رہے۔ دینی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے بھی انہوں نے عمر بھر اَن تھک جدوجہد کی۔ اس کوشش میں وہ کبھی کامیاب ہوئے، کبھی ناکام، مگر وہ پسپا نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کا عزم متزلزل ہوا۔ سچ بات یہ ہے کہ مولانا عبدالرحیم اشرفؒ جیسے عزم و ارادے کے انسان مائیں خال خال ہی جنتی ہیں۔ وہ قوم کو ان خطرات کی طرف مسلسل توجہ دلاتے رہے جو اس وقت وطنِ عزیز کے اُفق پر منڈلا رہے تھے اور آج جن کی شدت میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔ اس موقع پر ممتاز شاعر سیف الدین سیف کا شعر یاد آتا ہے۔
بڑے خطرے میں ہے حُسنِ گلستاں ہم نہ کہتے تھے
چمن تک آ گئی دیوارِ زنداں ہم نہ کہتے تھے
1977ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چل رہی تھی، روزنامہ ’’وفاق‘‘ اس میں پیش پیش تھا اور اس حقیقت کے باوجود کہ مدیرِ ’’وفاق‘‘ جناب مصطفی صادق کو بھٹو صاحب کا بہت قُرب حاصل تھا، اخبار ان کی آمریت کے خلاف صف آرا رہا۔ اس عرصہ میں مصطفی صادق صاحب اور میرے مابین اختلافات بھی پیدا ہوئے اور چند روز کے لئے میں ناراض ہو کر گھر بیٹھ گیا اور دفتر جانا چھوڑ دیا۔ مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، وہ لاہور آئے ہوئے تھے، انارکلی میں ادارہ اسلامیات سے انہوں نے دفتر ’’وفاق‘‘ فون کیا، جب انہیں پتہ چلا کہ میں نے دفتر جانا چھوڑ رکھا ہے تو انہوں نے مجھ سے گھر پر رابطہ کیا اور پھر گھر تشریف لے آئے اور اپنے مخصوص پیرا یہ میں کہا کیا یہ گھر بیٹھنے کا وقت ہے؟ اور وہ بھی محاذ جنگ چھوڑ کر۔ تم کیسے سپاہی ہو کہ اپنا مورچہ خالی چھوڑ آئے ہو؟ مصطفی صادق صاحب سے کہہ دو کہ لڑائی بھڑائی بعد میں ہوتی رہے گی، اب تو وقت ہے مورچہ سنبھال لینے کا۔ ان کی باتیں بہت اثر کرنے والی تھیں، میں ان کے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا اور اپنا مورچہ سنبھالنے کے لئے پھر کمر بستہ ہو گیا۔
آخر میں تّبرک کے طور پر عاجز کے نام مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کا ایک مکتوب گرامی جو انہوں نے 19 نومبر 1962ء کو میرے نام لکھا، جب ہم نے ان سے روزنامہ ’’وفاق‘‘ سرگودھا کے سرگودھا ڈویژن نمبر کے لئے مضمون اور اشتہار کی درخواست کی تھی۔
عزیز مکرم
مزاج گرامی !
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔
گرامی نامہ دستی ملا، یاد دہانی کا شکریہ ! آپ نے مجھے ’’وفاق‘‘ کے سرگودھا ڈویژن نمبر میں اشرف لیبارٹریز کے تعارف میں پوری دلچسپی لینے کا ارشاد فرمایا ہے، درآنحالیکہ میری پوری دلچسپی صرف اس بات میں ہے کہ ہمارے آقا ﷺ نے جو فرصت ہمیں اپنے آپ کو آئندہ کی زندگی میں نجات پانے والے گروہ میں شامل کرنے کے لئے عطا فرمائی، چونکہ یہ مدت بڑی تیزی سے ختم ہو رہی ہے اور بالخصوص جس برق رفتاری سے اس دور میں انسان رختِ سفر باندھے بغیر مجبورِ سفر ہو رہے ہیں، اس لئے ساری دلچسپی تو اس سفر کی تیاری اور اپنی نجات ہی کے لئے ہونی چاہئے اور جو کام ہم یہاں کر رہے ہیں ان کو اسی سفر کے وسیلے ہی کی حیثیت سے اختیار کرنا چاہئے، ہر وہ کام ہماری فہرست سے خارج ہو جائے جو اس سفر کی تیاری میں رخنہ اندازی کا باعث ہو سکتا ہو اور ہر وہ کام ہماری کاوشوں کو جذب کرے جو اس لمبے، مشکل اور کامل طور پر تنہائی کے سفر کو بہتر بنا سکتا ہو۔
اسے آپ وعظ کہہ کر ٹالئے نہیں، ’’پوری دلچسپی‘‘ کا مستحق تو یہی کام ہے! اور آپ سے تعلق کی بنا پر ایک عرصے کے بعد جو عرض معروض کا موقع ملا ہے تو اس کا اعادہ ضروری محسوس ہوا۔
لٹریچر قسم کی اشیاء دوبارہ ارسال کر رہا ہُوں، آپ کا اپنا لکھا ہوا بھی اس میں شامل ہے۔ اُمید ہے کہ آپ ہر دو حضرات ٹھیک ٹھاک ہوں گے امر لائقہ سے مطلع فرمائیں۔ کچھ ضروری کتابیں، آپ کے پاس ہوں گی، کیا بھجوا کر ممنون فرمائیں گے؟
والسلام
عبدالرحیم اشرفؒ
یہ خط اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ وہ نصیحت، خیر خواہی اور آخرت کے لئے فکر مندی اور تیاری کی طرف توجہ دلانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے۔
خط کے آخر میں انہوں نے اشرف لیبارٹریز کے اُس تعارفی مواد کی طرف اشارہ کیا ہے جو میں نے 1959-60ء میں مرتب اور تحریر کیا تھا۔
مولانا عبدالرحیم اشرفؒ جنہیں مولانا ماہر القادریؒ اپنے ماہنامہ ’’فاران‘‘ میں لکھے گئے مضامین میں ہمیشہ ’’مولانا محمد اشرف‘‘ لکھتے تھے، ماہر القادری صاحب کے علاوہ اور بھی کئی اصحاب ان کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں مولانا محمد اشرف لکھ دیتے، حقیقت میں ایک نابغہ اور عبقری تھے، وہ پاکستان میں اسلامی انقلاب کا خواب اپنے ذہن میں سجائے ہوئے تھے، ان کے قلم سے نکلنے والے شہ پارے ان کی اسلام سے بے پایاں محبت اور پاکستان کی عظمت ورفعت اور استحکام و سالمیت کی تمنا اور آرزو کی خوشبو میں بسے ہوتے تھے، افسوس! ان کی رحلت سے قوم اپنے ایک فرزندِ جمیل اور بطلِ جلیل سے محروم ہو گئی۔
وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں