خبرنامہ

جنگِ ستمبر، حقائق اور دوغلے ستمگر …ابراہیم راجہ

زہر بجھے لہجے، انگارے اگلتی زبانیں، اشاروں پر ناچتی پُتلیاں، لبرل ازم کا لبادہ اوڑھے پراسرار کردار، قوم کی نسوں میں فوج کے خلاف نفرت کا زہر بھر رہے ہیں۔ چند طالع آزما جرنیل نہیں، پوری فوج اور ریاست ان کا ہدف ہے، پہلے ڈھکے چھپے وہ اپنا مکروہ کھیل کھیلتے، اب اپنے سرپرستوں کی شہ پر کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔ کہیں اور بس نہ چلے تو سوشل میڈیا پر ذہنی غلاظت اگل دیتے ہیں، جھوٹ اور تعصب سے لتھڑی ان کی زبانیں، ستمبر میں قینچی کی طرح چلنے لگتی ہیں۔ دور کی کوڑیاں وہ لاتے ہیں، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ پاکستان پینسٹھ کی جنگ جیتا نہیں ہارا تھا۔ طنز کے تیر وہ برساتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف لڑتے جوانوں اور قوم کے حوصلے پست کرنے کے لیے۔
پینسٹھ کی جنگ کون ہارا، کون جیتا، دونوں طرف کے مورخین اس پر بہت کچھ لکھ چکے‘ غیرجانبدار عالمی ماہرین کی رائے میں اگرچہ زیادہ وزن ہے۔ وہ ماہرین جو میدان جنگ میں پاک فوج کو کئی پیشہ ورانہ حوالوں سے بھارتی افواج پر غالب قرار دیتے ہیں۔ پاک فضائیہ نے اس جنگ میں بھارت کے 104 طیارے مار گرانے کا دعوی کیا جبکہ اپنے 19 جہاز تباہ ہونے کا اعتراف کیا۔ دوسری جانب بھارتی فضائیہ نے پاکستان کے 73 طیارے گرانے کا دعویٰ کیا اور اپنے 59 جہاز تباہ ہونے کا اعتراف بھی کیا۔ یہ متضاد دعوے ایک جانب لیکن ‘انسائیکلوپیڈیا آف دا ڈویلپنگ ورلڈ‘‘ کے مصنف تھامس لیونارڈ کے مطابق، اس جنگ میں پاک فضائیہ کے تقریباً 20 جبکہ بھارت کے 60 سے 75 طیارے تباہ ہوئے۔ ہوابازی
کے ماہر اور مورخ ”Kenneth Warrel ‘‘ نے بھی اس جنگ میں پاک فضائیہ کی کارکردگی کو بھارتی فضائیہ کی کارکردگی سے بہتر قرار دیا۔ انہوں نے اپنی کتاب ”Sabres over Mig Alley‘‘ میں لکھا کہ جنگ ستمبر میں پاک فضائیہ کو بھارتی فضائیہ پر برتری حاصل تھی۔ مصنف کے مطابق پاک ایئرفورس کو اپنے سے پانچ گنا بڑی فضائیہ کا سامنا تھا۔ اس کے باوجود پاکستانی پائلٹس نے اپنی مہارت سے پاک فضائیہ کو بھارتی ایئرفورس پر برتری دلائے رکھی۔ اسی جنگ میں پاکستانی پائلٹ ایم ایم عالم نے ایک منٹ سے کم وقت میں بھارت کے پانچ جنگی طیارے گرانے کا کارنامہ انجام دیا۔ اس کارنامے پر ان کا نام ”Flying Aces‘‘ کی عالمی فہرست میں درج ہوا۔ اس فہرست میں ان پائلٹس کے نام شامل ہیں جنہوں نے ایک جنگ میں دشمن کے پانچ یا اس سے زائد طیارے مار گرانے کا اعزاز حاصل کیا۔ 1950ء کی کورین جنگ کے بعد ایم ایم عالم ”Flying Ace‘‘ کا اعزاز پانے والے پہلے پائلٹ تھے۔ عالمی دفاعی ماہرین کے مطابق بھارتی بحریہ بھی پاک بحریہ کے ”آپریشن دوارکا‘‘ کا جواب دینے میں ناکام رہی۔ اس ناکامی پر بھارتی پارلیمنٹ میں بھی سوالات اٹھائے گئے اور اسے ہندوستان کے لیے ہزیمت قرار دیا گیا۔ پاک آرمی کے جوانوں نے بھی چونڈہ، کھیم کرن، پسرور اور دیگر کئی محاذوں پر شجاعت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ اس جنگ میں پاک فوج کو بھاری نقصانات بھی اٹھانا پڑے لیکن کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ بھارت کی عددی اور عسکری قوت، پاکستان سے کئی گنا زیادہ تھی۔ 1971ء کی جنگ میں اگرچہ
پاکستان دو لخت ہوا لیکن اس لڑائی میں بھی پاک فوج کے جوانوں نے انفرادی طور پر ہمت اور بہادری کے شاندار مظاہرے کیے۔ مشرقی پاکستان کے علاقے جمال پور میں بھارتی بریگیڈیئر اور پاکستانی لیفٹیننٹ کرنل سلطان احمد کے درمیان تاریخی خطوط کا تبادلہ آج بھی عسکری ریکارڈ زکا حصہ ہے۔ سقوط ڈھاکہ سے چھ روز پہلے، دس دسمبر انیس سو اکہتر کو بھارتی افسر نے کرنل سلطان کو خط بھجوایا ”آپ کے علاقے کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہے، فرار کا کوئی راستہ نہیں، اگلی صبح آرٹلری کی بھرپور مدد سے پورے دو بریگیڈ حملہ کرنے کو تیار ہیں، بھارتی مِگ طیاروں کو بھی چالیس حملے کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے، بہتر ہے کہ آپ اور آپ کے سپاہی ہتھیار ڈال دیں۔ کرنل سلطان کو یہ خط ملا تو انہوں نے جوابی خط میں بندوق کی گولی لپیٹی اور بھارتی بریگیڈیئر کو بھجوا دیا۔ اس خط میں لکھا تھا ”بریگیڈیئر صاحب! آپ نے ابھی بہت تھوڑی سی لڑائی دیکھی
ہے، دراصل لڑائی تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی، مذاکرات چھوڑیے اور آئیے لڑ کر دیکھتے ہیں، اور ہاں جن چالیس فضائی حملوں کا ذکر آپ نے کیا، شاید وہ کم پڑ جائیں گے، میدان میں آپ سے آمنا سامنا ہو تو آپ کے ہاتھ میں قلم نہیں، بندوق دیکھنا چاہوں گا، لگتا ہے صرف قلم چلانے میں ہی آپ ماہر ہیں، اب لڑائی کے لیے تیار ہو جائیں‘‘۔ اکہتر کی جنگ میں بھارتی فوج کے سربراہ سیم مانک شاء نے خود بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میںکہا ”پاکستانی فوج بہت بہادری سے لڑی لیکن ان کے پاس کوئی چانس نہیں تھا، وہ اپنی بیس سے ہزار میل دورتھے، میرے پاس جنگ کی تیاری کے لیے آٹھ سے نو ماہ تھے، ہمارے پاس ایک کے مقابلے میں پندرہ کی عددی برتری تھی‘‘۔ پاک فضائیہ کے شاہین ستار علوی کا نام آج بھی عرب ملکوں کی عسکری تاریخ میں جلی حروف میں لکھا ہوا ہے، پاکستانی پائلٹ ستار علوی نے 70ء کی دہائی کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی طیارہ مار گرایا تھا، انہیں اور سکوارڈن لیڈر عارف منظور کو ان کی شجاعت پر شامی حکومت نے اعلیٰ ترین فوجی اعزازات سے نوازا۔ کارگل جنگ میں کیپٹن کرنل شیر خان نے عزم و بہادری کی نئی مثالیں قائم کیں۔ اس جنگ میں بھارتی فوج کی قیادت کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل مہندر پوری نے خود شیر خان کی شجاعت کا اعتراف کیا۔
جرات کی درجنوں داستانیں پاک افواج کے جوان رقم کرتے آئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انہوں نے وہ کامیابیاں حاصل کیں، جو افغانستان میں امریکا اور تیس ملکوں کی فوج مل کر بھی نہ کر پائی۔ جو فوج ملکی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، بیرونی آقائوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے چند عناصر اسی فوج کو عوامی حمایت سے محروم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ میدان جنگ میں قوم کی مکمل حمایت فوج کی سب سے بڑی قوت ہوتی ہے۔ اس نازک صورت حال میں فوج کو کمزور کرنے کا مقصد کیا ہے؟ مشرق وسطیٰ میں جن ریاستوں کی افواج کمزور تھیں، داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں ان کا کیا حشر ہو رہا ہے ؟ یہ ریاستیں اپنا وجود تک کھو چکیں، فوج کو کمزور کرکے پاکستان کو اسی انجام کی جانب دھکیلنا کس کا ایجنڈا ہو سکتا ہے؟ ہاں کئی ایسے بھی ہیں جو کسی ایجنڈے کے تحت نہیں، اصلاح کے لیے تعمیری تنقید کرتے ہیں۔ درست کہ پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف پرائی جنگ پاکستان پر مسلط کی، اپنی آمریت کو طول دینے کے لیے فوج کی ساکھ انہوں نے مجروح کی، لیکن ایک بات اگرچہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ جمہوریت پر شب خون مارنے والے آمروں کے اعمال کی ذمہ دار پوری فوج نہیں۔ آمروں پر تنقید کی آڑ میں، کچھ سیاسی شعبدہ باز کبھی پارلے منٹ میں فوج پر چڑھائی کرتے ہیں، اور کبھی افغان سرحد کی نگرانی کے معاملے پر فوج پر تنقید کے نشتر برساتے ہیں، جوانوں کی قربانیاں فراموش کرکے پاک فوج کی صلاحیت اور جذبے پر بھی وہ سوال اٹھاتے ہیں۔ پاک فوج سے ہی نہیں ریاستِ پاکستان سے بھی انہیں بغض ہے، لُوٹ مار پاکستان میں کرتے ہیں لیکن دم ہمیشہ افغانستان اور بھارت کا بھرتے ہیں۔