خبرنامہ

نشانِ حیدر اور اس کے پاسبان …امیر حمزہ

شہیدوں کے خون کے وارث نے پاک فوج کی کمان سنبھال لی ہے۔ کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اپنی موجودہ ذمہ داریوں کے دور میں نہ صرف شاندار دفاعی کارنامے انجام دیں گے بلکہ پاکستان کا دفاع بھی ناقابل تسخیر بنا دیں گے‘‘ قارئین کرام! محترم نذیر ناجی صاحب کا مندرجہ بالا جملہ جو تین سال پرانا ہے آج حرف بحرف حقیقت بن کر ”قولِ زریں‘‘ بن چکا ہے۔ پاک فوج کا آرمی چیف اپنی تمام افواج کے شہیدوں کا وارث ہوتا ہے۔ ان شہداء میں ”نشانِ حیدر‘‘ حاصل کرنے والوں کا وہ خصوصی طور پر وارث ہوتا ہے۔ جنرل راحیل شریف کو یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ نشانِ حیدر پانے والوں میں سے دو کا تعلق ان کے اپنے خاندان سے ہے۔ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید ان کے ماموں ہیں جبکہ میجر شبیر شریف شہید ان کے بڑے بھائی ہیں۔ یوں افواج پاکستان ان کا عمومی خاندان ہے۔ بَرّی فوج ان کا خصوصی خاندان ہے۔ نشانِ حیدر پانے والے ان کا خاص الخاص خاندان ہے اور اسی تیسرے اہم ترین خاندان میں ان کا اپنا شہیدی خون شامل ہے۔ اس بار انتہائی خوبصورت اتفاق ایسا ہے کہ قربانی کے مہینے میں پاک فوج کی قربانیوں کا مہینہ بھی شامل ہو گیا ہے۔ حج یعنی قربانی کے مہینے کے ابتدائی دس دن انتہائی مقدس دن ہیں۔ دسواں دن قربانی کا دن ہے۔ ان دس دنوں کی فضیلت کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ”ان دنوں میں انجام دیئے ہوئے (نیک) عمل سے بڑھ کر باقی دنوں میں کوئی عمل افضل نہیں‘‘ صحابہ نے عرض کی، اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں؟ فرمایا! ”ہاں، جہاد بھی نہیں۔‘‘ پھر فرمایا ”ہاں اس مجاہد کا عمل بڑھ کر ہے جو اپنی جان اور مال لے کر اللہ کی راہ میں نکلا پھر وہ کچھ بھی لے کر واپس نہ آیا ۔‘‘(بخاری) یعنی وہ اپنی جان لے کر اللہ کے پاس جا پہنچا۔
قارئین کرام! نشانِ حیدر پانے والے ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں۔ اس بار چھ ستمبر کا دن قربانی کے دنوں میں آیا ہے۔ قربانی کے دسویں دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد ہے۔ اس قربانی کو اللہ تعالیٰ نے ”عظیم قربانی‘‘ کا نام دیا ہے۔ ہم مسلمان اس دن کو منانے والے ہیں۔ عظیم قربانی کے تذکرے کرنے والے ہیں۔ اس عظیم قربانی کے سائے میں ملت ابراہیم علیہ السلام کے سپوتوں نے پچھلے ستر سالوں میں جو قربانیاں پیش کی ہیں آج میں ستمبر کے حوالے سے ان کا تذکرہ کرنے چلا ہوں۔ انہی تذکروں کی یاد ہی تو ہماری زندگی ہے۔ اسی میں ملت کا تحفظ پنہاں ہے۔ اسی میں دفاع ہے اور اسی میں منزل کی راہ ہے۔
14اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا مگر ہندو مسلم فسادات تو تین چار ماہ پہلے ہی شروع ہو گئے تھے۔ میں انہیں فسادات نہیں کہتا، انگریز اور ہندو کی مشترکہ جنگ کہتا ہوں جو پاکستان کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف تھی۔ یہ جنگ 14اگست کے بعد بھی جاری رہی مگر 14اگست کو پاک فوج بھی وجود میں آ چکی تھی چنانچہ جموں اور کشمیر کے مسلمان جو ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں کٹ رہے تھے اور اب ان کا ساتھ ہندوستانی فوج نے بھی دینا شروع کر دیا تھا، ان کی مدد کے لئے پاکستانی فوج کو بھی میدان میں آنا پڑا۔ چنانچہ 22اکتوبر 1947ء کو جنگ کا آغاز ہو گیا۔ نائیک سیف علی جنجوعہ جو برطانیہ کی انڈین آرمی میں 1941ء میں شامل ہوئے تھے، انہوں نے انڈین فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے ”حیدری فورس‘‘ کی بنیاد رکھی، کشمیر کے سردار فتح محمد کی تائید حاصل کی اور انڈین فوج سے لڑنا شروع کر دیا۔ وہ پلاٹون کمانڈر کی حیثیت سے خوب لڑے۔ ان کے زیرقبضہ علاقے پر ہندوستانی فوج کے بریگیڈ نے ٹینکوں اور بکتربند سے حملہ کر دیا۔ انہیں ایئرفورس کی بھی مدد حاصل تھی۔ نائیک سیف علی نے اپنی پلاٹون کے جانبازوں کے ساتھ اس حملے کو روکا۔ ایک پلاٹون کے ساتھ پورے بریگیڈ کو روکے رکھنا اور فضائی حملوں کا بھی مقابلہ کرنا بہت بڑی جوانمردی ہے۔ نائیک نے کئی دن تک اس حملے کو روکا۔ آخر میں تنہا برین گن کے ذریعے سے پورے بریگیڈ کو اپنی حکمت عملی سے روکا۔ تب تک پاک فوج کی کمک بھی آ گئی۔ نائیک سیف علی کو سینے پر توپ کے گولے کے پارچے لگے۔ وہ شدید زخمی ہوئے مگر اپنا مورچہ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ 26اکتوبر 1948ء کو وہ شہید ہو گئے۔ آزاد جموں و کشمیر کونسل نے انہیں 14مارچ 1949ء کو ”ہلالِ کشمیر‘‘ کا تمغہ دیا۔ 30نومبر 1995ء کو حکومت پاکستان نے اس تمغے کو ”نشان حیدر‘‘ کے برابر قرار دیا۔
قارئین کرام! میں بتلانا اور ثابت یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت کے قائم مقام انگریز آرمی چیف جنرل گریسی نے قائداعظم کے حکم پر ٹال مٹول کر کے کشمیر میں فوج نہ بھیجی مگر وہاں سیف علی نائیک جو پاک فوج کا حصہ بن چکے تھے، اپنے طور پر فوجیوں کو اکٹھا کر کے اور بٹالین بنا کر ہندوستانی فوج کو کشمیر کے آزاد کرائے گئے حصے پر قبضہ کرنے سے روکے رکھا۔ کیپٹن سرور نے بھی اوڑی کے علاقے میں یہی کردار ادا کیا۔ سینے پر گولیاں کھائیں مگر دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ 27جولائی 1948ء کو وہ شہید ہوئے۔ انہیں بھی نشانِ حیدر دیا گیا۔ یوںہمارے ابتدائی دو دلیر شہیدوں کو اعلیٰ تمغے کشمیر کی جنگ لڑنے پر دیئے گئے۔ یہ جنگ جو پاک فوج نے خوب لڑی، یکم جنوری 1949ء تک چلی۔ یہ جنگ ایک سال دو ماہ ایک ہفتہ تین دن تک جاری رہی پھر پنڈت نہرو نے یو این میں جا کر دہائی دی جس کی وجہ سے پاکستان نے سیزفائر قبول کر لیا کہ یو این کشمیر میں رائے شماری کرائے گا۔
انڈیا خود ہی جنگ بند کروا کر خود ہی خلاف ورزی کرنے لگا۔ اس نے آنے والے چند ماہ کے اندر اندر 48مرتبہ سیزفائر لائن کی خلاف ورزی کی۔ 30مرتبہ فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔ مشرقی پاکستان کی سرحدوں پربھی یہی سلسلہ جاری رہا۔ حتیٰ کہ اس نے ”لاسخمپور‘‘ کے علاقے میں ایک سرحدی گائوں پر قبضہ کر لیا۔ میجر طفیل جو یہاں تعینات تھے انہوں نے 7اگست 1958ء کو انڈین فوج پر حملہ کر دیا اور انڈین فوج کو شدید جانی نقصان پہنچانے کے بعد نکال باہر کیا۔ انہیں پیٹ میں گولیاں لگیں مگر متواتر مشین گن کا فائر کر کے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے۔ گرنیڈ بھی پھینکتے رہے۔ ان کی پوسٹوں کو تباہ کرتے رہے۔ پھر جب انہوں نے اپنے سامنے دشمن کمانڈر کو دیکھا جس نے ان کے جوانوں کا نقصان کیا تھا تو پیٹ میں گولیاں لگنے اور خون بہنے کے باوجود کرالنگ شروع کر دی اور دشمن کے ساتھ دست بدست لڑائی شروع کر دی۔ میجر طفیل نے اپنے سٹیل ہیلمٹ سے ہندو کمانڈر کو مار مار کر جان سے مار دیا۔ دشمن اب بھاگ رہا تھا، میجر طفیل نے اپنے جونیئرز کو آواز دے کر کہا وہ بھاگ رہے ہیں، میں نے اللہ کی مدد سے اپنا فریضہ پورا کر دیا ہے۔ ساتھ ہی شہید ہو گئے۔ انہیں اس جانبازی پر نشانِ حیدر عطا کیا گیا۔ انہیں بوریوالہ میں ان کے گائوں میں دفن کیا گیا۔ گائوں کا نام طفیل آباد رکھ دیا گیا۔
میجر راجہ عبدالعزیز بھٹی 1965ء کی جنگ کے واحد شہید ہیں جنہیں نشانِ حیدر دیا گیا۔ لاہور کے دفاع کے لئے برکی کا علاقہ ان کے پاس تھا۔ وہ پانچ دن اور پانچ راتیں متواتر جاگتے ہوئے دشمن سے لڑتے رہے۔ ان کے کمانڈر نے پیغام بھیجا کہ آپ ذرا آرام کر لیں، آپ کی جگہ دوسرا افسر بھیج دیتا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا، میری جگہ پر کوئی بندہ نہ بھیجئے، میں محاذ سے واپس نہیں جائوں گا۔ اپنے خون کے آخری قطرے تک اپنے پیارے پاکستان کی حفاظت کروں گا۔ راجہ شہید کو گجرات کے علاقے کھاریاں کے گائوں لادیاں میں دفن کیا گیا۔ یہ جنرل راحیل شریف کے ماموں تھے۔ اس کے بعد 1971ء کی جنگ میں پانچ دلاوروں کو نشانِ حیدر سے نوازا گیا۔ ان میں سرفہرست جنرل راحیل کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف شہید ہیں۔ انہوں نے اعزازی تلوار بھی حاصل کی۔ وہ واحد افسر ہیں جنہوں نے ستارئہ جرأت اور نشانِ حیدر حاصل کیا۔ انہیں پاک آرمی کا ”سپرمین‘‘ کہا جاتا تھا۔ انہوںنے ہیڈ سلیمانکی سے آگے بڑھ کر سبونہ نہر تک کا علاقہ فتح کیا، دشمن کے چار ٹینک تباہ کئے، ایک ہی دن ان کی بٹالین کے 43فوجی مار دیئے۔ ان کے مدمقابل میجر نرائن سنگھ نے انہیں للکارا تو وہ اللہ اکبر کہہ کر مورچے سے باہر نکلے۔ نرائن سنگھ کی سٹین گن چھینی اور اسی سے اسے قتل کر دیا۔ اللہ کے اس شیر کو ٹینک کا گولہ لگا، زخمی ہوئے، آخری الفاظ تھے ”نہر کے پل کو نہ چھوڑنا‘‘ اور شہید ہو گئے۔ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں مدفون ہوئے۔ 1971ء کی جنگ کے دوسرے غیرت مند اور دلیر پائلٹ راشد منہاس ہیں۔ وہ اپنے جیٹ جہاز کو رن وے پر دوڑا رہے تھے کہ ان کے انسٹرکٹر مطیع الرحمن بنگالی نے ٹھہرنے کا سگنل دیا۔ وہ رکے تو مطیع الرحمن چھلانگ مار کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ راشد منہاس نے جہاز اڑایا تو مطیع الرحمن نے اس کا رخ انڈیا کی طرف کر دیا۔ وہ انڈیا سے مل چکا تھا۔ راشد منہاس سمجھ گئے۔ دونوں میں ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔ راشد منہاس نے فیصلہ کر لیا کہ اپنے دشمن بھارت کے ہاتھ نہیں آئیں گے (ان شاء اللہ) چنانچہ جہاز گرا، راشد منہاس شہید ہو گئے۔ پاکستان کا غدار اور انڈیا کا یار گرتے جہاز سے باہر گر گیا۔ راشد منہاس جہاز کے اندر ہی تھے۔ اللہ نے دکھلا دیا کہ جہاز والا اپنے جہاز میں شہید ہوا اور جو غداری کا مرتکب ہوا پاکستانی جہاز نے اسے اپنے اندر رکھنے سے انکار کر دیا۔ میجر اکرم، محمد محفوظ اور محمد حسین نے بھی نشانِ حیدر حاصل کیا۔ 1999ء کی کارگل جنگ کہ جس کے دوران میں خود تورتک اور بٹالک کی چوٹیوں کے دامن میں تھا، یہاںصوابی کے کرنل کیپٹن شیر خان اور صوبہ گلگت بلتستان کے لالک جان شہید ہوئے اور نشانِ حیدر حاصل کیا۔
مودی اور اس کے فوجی افسروں نے آج پھر ڈھاکہ یاد کروا کر پاکستان کو للکارا ہے تو شہیدوں کے وارث جنرل راحیل نے گلگت میں کھڑے ہو کر مودی اور ”را‘‘ کا نام لے کر اور ان کے پشت پناہوں کو مخاطب کر کے پیغام دیا ہے کہ پاکستان کے دفاع کے لئے ہم آخری حد تک جائیں گے۔ آج جنرل صاحب نے یہ جملہ اس وقت کہا ہے جب گزشتہ تین سال میں انہوں نے ضرب عضب کے ذریعے سے دہشت گردوں اور غدارانِ وطن کا قلع قمع کر دیا ہے۔ راشد منہاس کے وارث جنرل راحیل کو سلام! عید قربان پر مبارکباد کہ ان کی قربانیوں نے ہمیں سلامتی کا چاند دکھلایا ہے اور امن، اعتماد اور یقین سے ہمکنار کیا ہے۔ (الحمدللہ