خبرنامہ

نیت کون ٹھیک کرے گا؟ …نازیہ مصطفی

اس میں کوئی شک نہیں کہ آپریشن ضرب عضب کو پاکستان کی حربی تاریخ میں اہم مقام حاصل ہے۔ مورخ پاکستان کی عسکری تاریخ مرتب کرتے وقت جب آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کے باب پر پہنچے گا تو قلم کو بغل میں دبانے یا کانوں میں اُڑسنے کی بجائے صفحہ قرطاس پر مسلسل گھسیٹنے پر مجبور ہوجائے گا۔کہاں ہمہ وقت دہشت گردی کی کارروائیوں کے خدشات میں کمر کمر دھنسا پاکستان اور کہاں اب دہشت گردی کے عفریت سے نجات حاصل کرکے امن و امان کی منزل کی جانب رواں دواں پاکستان! کہاں بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور روز افزوں بدامنی کے داغ دھبوں سے اٹا وطن عزیز اور کہاں احساس تحفظ کے خوشگوار جھونکوں سے مہکتی ملک خداداد کی آزاد فضائیں!اگرچہ صورتحال بہت زیادہ مثالی نہ بھی سہی، لیکن پھر بھی کیا یہ غلط ہے کہ آپریشن ضرب عضب سے پہلے تو ملک عزیز کے چوک چوراہے محفوظ تھے نہ ہی گلیاں و بازار جائے امان قرار دیے جاسکتے تھے۔ شاہراہوں پر چلنے والے شہریوں کی زندگی کی ضمانت دی جاسکتی تھی نہ ہی گھروں کے اندر کئی کئی حفاظتی حصاروں میں بیٹھے لوگ مطمئن تھے۔ اس سے پہلے عبادت گاہیں محفوظ تھیں اور نہ ہی تعلیمی ادارے دہشت گردوں کی دست برد سے دور تھے، لیکن آج اگر بے موت مارے جانے کے خوف سے آزاد زندگی شاہراہوں پر سبک خرام ہے اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں واضح کمی واقعہ ہوچکی ہے تو اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ سب کچھ آپریشن ضرب عضب کی بدولت ہی ممکن ہوسکا ہے۔
دہشت گردوں کو مرکزی دھارے میں لانے کیلئے کیے جانے والے مذاکرات کے اتمام حجت کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو یقینا ایک مدبرانہ اور دلیرانہ فیصلہ تھا، جس کیلئے سول اور عسکری قیادت کو کریڈٹ دیا جانا چاہیے! لیکن آپریشن ضرب عضب کے لگ بھگ سوا دو سال کی بھرپور کامیابیوں کے باوجود یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ملک میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور حقیقی امن کے قیام کی منزل ابھی بہت دور ہے۔اگرچہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں لیکن دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات بھی یہی ثابت کرتے ہیں کہ دہشت گردی کا خطرہ ٹلا ضرور ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔آپریشن ضرب عضب کی ڈھیروں کامیابیوں کے بعد اب جب دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ملک کے اندر اور باہر پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات اور اِن خطرات سے نمٹنے کیلئے اپنائی جانے والی پالیسی اور کیے جانے والے اقدامات کے حوالے سے سوالات اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد بھی سوالات اُٹھے کہ اگر پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا تعلق اس خطے میں مختلف بیرونی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی در پردہ جنگ سے ہے تو ہم اُس پراکسی وار کا موثر جواب کیوں نہیں دے پارہے؟ہم دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے نظریاتی، اسٹریٹیجک اور سفارتی سطح پر درست اقدامات کرنے سے کیوں ہچکچارہے ہیں؟ پاکستان کے اندر اپنا کھیل کھیلنے والی امریکی، بھارتی، افغان اور ایرانی خفیہ ایجنسیوں کے مکروہ کھیل کو ہم کھل کر بے نقاب کیوں نہیں کرتے؟ہم چاروں ممالک کی قیادت کے سامنے اُن کی ایجنسیوں کے کرتوت کیوں نہیں رکھتے؟ سوال تو یہ بھی اُٹھ رہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان کس قدر جامع اور پراثر ہے؟وطن عزیز سے شدت پسندی کے خاتمے کیلئے ریاستی سطح پر اقدامات نہ ہونے کے برابر کیوں نظر آتے ہیں؟ کسی ایک یا دوسرے آپریشن کے بعد ہم یہ کیوں سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے؟ دہشت گردی کے نئے واقعات کے بعد یہ سوالات پھر سر اٹھانے لگے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے کیا صرف دعوے ہی تھے؟آخر ہم کمر توڑنے کی بجائے دہشت گردوں کی فصل اُگانے والے دہشت گردی کے بیج کا خاتمہ کیوں نہیں کرتے؟ دہشت گردوں کی نت نئی حکمت عملیاں سامنے آنے کے بعدعملی اقدامات کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر اور خود کو بری الزمہ سمجھ کر کیا ہم شتر مرغ کی طرح پرانی غلطی نہیں دہرانے لگتے ہیں؟20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد نہ کرکے کیا ہم شدت پسندی، عسکریت پسندی اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرسکتے ہیں؟
دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بنائے گئے ڈھیروں اداروں میں ایک ”نیکٹا‘‘ نامی ادارہ بھی ہے تو اگر نیکٹا کو فعال کرنا بہت ضروری ہے تو پھر اس کی مکمل فعالیت کی راہ میں رکاوٹ کون ہے؟ آئے روز میڈیا میں شائع ہونے والے طرفین کے بیانات کے مطابق اگر مدارس واقعی اصلاحات کیلئے راضی اور ادارے اصلاحات کیلئے تیار ہیں تو پھر اصلاحاتی مسودہ ابھی تک طاق نسیاں پر کیوں دھرا ہے؟ انٹیلی جنس اداروں کے مابین رابطوں میں واضح بہتری کیوں نہیں آتی اور اِس میں قصور سول اداروں کا ہے یا سکیورٹی ادارے ذمہ دار ہیں؟ اہم مواقع پر سیکورٹی اور سول ادارے دہشت گردی کی بیخ کنی کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو موردِ الزام کیوں ٹھہرانے لگتے ہیں؟
ان تمام سوالات کے باوجود اگر یہ کہا جائے کہ ملکی قیادت کو پاکستان کے اصل دشمن اور دشمن کے عزائم کا علم نہیں تو یہ سراسر غلط ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر سول اور عسکری قیادت کو یہ معلوم ہے کہ ملک کا اصل دشمن کون ہے اور دشمن کے مقاصد کیا ہیں تو پھر قیادت کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جہاں بڑے اور کڑوے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے‘ وہیں دہشت گردوں کے ایسے تمام سہولت کاروں کو بے نقاب کرکے کٹہرے میں بھی کھڑا کرنا چاہیے جو کسی بھی حوالے سے اور اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے دہشت گردوں کو بچاتے، چھپاتے یا مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔
دہشت گردی کا دیگر سنگین جرائم کے ساتھ گٹھ جوڑ کا یہی نکتہ افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے یوم دفاع کے موقع پرجنرل ہیڈکوارٹر میں ایک تقریب سے اپنے خطاب میں بھی اُٹھایا۔ جنرل راحیل شریف نے اپنے خطاب میں ملکی سکیورٹی کے حوالے سے تقریبا ہر پہلو احاطہ کیا، لیکن ان کے خطاب میں ایک نکتہ جو سب سے اہم تھا، وہ نظام کی اصلاح کا نکتہ تھا۔ نظام کی تبدیلی اور اصلاح کی بات کرنے والے جنرل راحیل شریف پہلے شخص بھی نہیں ہیں کیونکہ جدید دنیا کی نبض پڑھنے والوں نے ہمیشہ نظام میں اصلاح کی بات کی، لیکن اِس میں بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ نظام میں اصلاح سے کہیں زیادہ ہمیں اپنی اصلاح کی ضرورت ہے! نظام بدلیں نہ بدلیں لیکن ملک کو ترقی، خوشحال اور پائیدار امن کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہے تو ہمیں اپنی اپنی نیت ضرورٹھیک کرنا ہوگی! کیونکہ اچھی نیت خراب نظام میں بھی خیر کا پہلو ڈھونڈ لیتی ہے، لیکن اگر نیت ہی خراب ہو تو اچھے بھلے نظام کا بیڑہ غرق ہوجاتا ہے۔اس لیے یہ سوال اپنی جگہ قائم رہے گا کہ نظام ٹھیک ہوبھی گیا تو نیت کون ٹھیک کرے گا؟