خبرنامہ

آزادی کے 75سال، معاشی منظر نامہ…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

آزادی کے 75سال، معاشی منظر نامہ…اسد اللہ غالب

پاکستان بنا مگر اس قدر زبوں حالی کا عالم تھا۔کہ دفتروں میں کامن پن کی جگہ کیکر کے نوکیلے کانٹوں سے کام چلایا جاتا تھا۔دوسری طرف ریاست کا خزانہ اس قدر خالی تھا کہ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے بھی پیسے نہ تھے۔اس مقصد کے لیے نجی سیکٹر کے بڑے صنعت کاروں نے حکومت کا ہاتھ بٹایا۔کفایت شعاری کا آلم یہ تھا کہ قائد اعظم نے کابینہ کے ارکان کو ہدایت کی کہ وہ چائے اور کھانا گھر سے بنوا کر دفتر لایا کریں۔ابتدائی چند برس اسی کسمپرسی میں گزر گئے مگر پھر پاکستان کو ایسے معاشی ماہرین کی خدمات حاصل ہوگئیں جنہوں نے حیران کر دینے والے ترقیاتی منصوبے تیار کیے۔ان منصوبوں کی بدولت پاکستان خطے میں ایک مثالی کاروباری اور صنعتی مملکت بن گیا۔اور دنیا کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔جنوبی کوریا،ملائیشیا جیسے پسماندہ ملکوں نے پاکستان کے صنعتی ماڈل کو کاپی کیا اور وہ بھی دیکھتے ہی دیکھتے ایشین ٹائیگر بن گئے۔پاکستان کی حیثیت ہر شعبے میں لیڈر جیسی تھی۔پی آئی اے دنیا کی ایک ماڈل ہوائی سروس تھی۔اس نے ملائیشین ایئر لائن،تھائی ایئر لائن،قطر ایئر لائن،امارات ایئرلائن،سعودی ایئر لائن اور کئی دوسرے ملکوں کی ایئرلائنوں کو اڑنا سکھایا۔بد قسمتی سے پاکستان اپنی صنعتی اور کاروباری ترقی کی رفتار قائم نہ رکھ سکا۔معاشی استحکام کو سیاسی انتشار نے ڈکار لیا اور پاکستان پسماندگی کا شکار ہوتا چلا گیا۔جبکہ اس کے صنعتی اور کاروباری ماڈل کی نقل کرنے والے ترقی کی دوڑ میں کہیں آگے نکل گئے۔خوش قسمتی سے پاکستان کے پاس پٹ سن کی شکل میں سنہری ریشہ موجود تھا اور کپاس کی کاشت میں بھی نت نئے تجربے کیے گئے۔جس سے ہماری کوٹن انڈسٹری اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی۔آج بھی پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر ملک کی پسماندگی کے باوجود ایک کماؤ پتر ہے۔ پاکستان کی ڈیفنس انڈسٹری بھی ترقی کی میراج کو چھو رہی ہے۔ہم جدید ترین تھنڈر لڑاکا طیارہ اپنی فیکٹریوں میں تیار کر رہے ہیں۔الخالد ٹینک بھی ہماری ہنرمندی کا شاہکار ہے۔پاکستان کا میزائل۔ پروگرام بھی دنیا پر لرزہ طاری کر رہا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کو اپنے ہمسائے میں ایک ایسا دشمن ملا جس نے ہمارے اوپر بار بار جنگیں مسلط کیں اور ہمیں پسماندگی کا شکار بنائے رکھا۔عالمی سطح پر بھی پاکستان کو جنگوں کے بوجھ تلے دبایا گیا۔سوویت روس نے افغانستان پر لشکر کشی کی،روس کامقصد بلوچستان کے گرم ساحلوں پر قبضہ کرنا تھا اس لیے پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے آگے بڑھنا پڑا۔روس ایک سپر طاقت تھا۔اور پاکستان نے مجاہدین کے لشکروں کو توڑے دار بندوقیں دے کر اس کے مقابلے میں کھڑا کیا۔دوسری سپر طاقت امریکہ نے پاکستان کی دفاعی حکمت عملی کو دیکھ کر اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور پوری عالمی برادری کو پاکستان کی پشت پر کھڑا کر دیا۔اب پاکستان کے پاس ہر قسم کا اسلحہ بھی آرہا تھا اور ڈالروں کی بارش بھی ہو رہی تھی۔پاکستان نے اس ماحول کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ضیا ء الحق کا دور شاہراہوں کی ترقی کا باعث بنا۔کھیت سے منڈی تک سڑکیں بنیں اور زراعت خوب پھلی پھولی۔ہمارا کاشت کا طبقہ نہال اور خوشحال ہوا۔پاکستان دوسری مرتبہ امریکہ کا لاڈلہ اس وقت بنا جب دوسری افغان جنگ شروع ہوئی۔اور دنیا نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کو اگلے مورچوں میں بٹھا دیا۔پاکستان نے یہ فریضہ کامیابی سے نبھایا۔اور اس بار بھی خوب ڈالر کمائے۔مگر دوسری طرف عالمی طاقتوں نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو دہشت گردی کی ایسی جنگ میں الجھا دیا جس میں پاکستان کے کمائے ہوئے ڈالر ضائع ہونے لگے۔دہشت گردی کی اس جنگ نے انسانی جانوں کا نذرانہ بھی لیا۔اور ہمارا معاشی قتل عام بھی کیا۔
پاکستان میں جمہوری حکومتوں کا تجربہ ہمیشہ ناکامی سے دوچار ہوا۔قومی قیادت کی سیاسی تربیت نہ ہونے کے برابر تھی وہ اپنی انا کے خول سے باہر نہ نکل سکی۔ایک دوسرے کے لیے برداشت کا مادہ بھی اس میں نہیں تھا۔ایک دوسرے کے خلاف بلیم گیم زوروں پر چلی۔اس کی وجہ سے کوئی جمہوری حکومت بھی اپنی آئینی ٹرم پوری نہ کر سکی۔اس سیاسی عدم استحکام نے ہماری معاشیا ت کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔سیاسی انتشار کا یہ سلسلہ ابھی تک اپنے عروج پر ہے۔جس کی وجہ سے اقتصادی بد حالی بھی ہمارے لیے باعث شرم ہے۔دوسری طرف ایک منظم سازش کے تحت پاکستان کو توانائی کے بحران کا شکار کیا گیا۔ہائیڈل بجلی سب سے سستی بنتی ہے لیکن منگلا اور تربیلا کے بعد ہم کالاباغ یا بھاشا جیسے بڑے منصوبوں سے گریز کرتے رہے۔توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہم نے عارضی حکمت عملی اختیار کی بجلی بنانے کے لیے تھرمل منصوبے لگائے۔جن سے بجلی تو مل گئی لیکن اس کے دام عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہوگئے۔ہمارے توانائی کے بحران میں عالمی اسباب نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافے نے ہماری بجلی کی پیدا وار مہنگی کر دی۔اس مہنگی بجلی نے ہماری صنعتوں کو تالے لگوا دیے۔ہماری مصنوعات بھی مہنگی ہوتی چلی گئیں۔اور وہ عالمی منڈیوں میں حریف ملکوں کا مقابلہ نہ کر سکیں جس سے ہماری برآمدات سکڑتی چلی گئیں۔آج پچھتر سال بعد ہماری برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں اور ہماری در آمدات کاحجم اس قدر پھیل گیا ہے کہ انہوں نے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر کو چاٹ لیا ہے۔لے دے کر ہمارے پاس اوور سیز پاکستانیوں کی ترسیلات کا ایک سہارا موجود ہے۔مگر وہ ہماری معیشت کا بوجھ سہارنے کے قابل نہیں ہے۔دوسری طرف ملک میں کرپشن بھی اپنے عروج پر ہے۔قومی وسائل کی لوٹ مار جاری ہے۔ملک کی دولت غیر قانونی ہتھکنڈوں سے باہر منتقل کی جا رہی ہے جس سے پاکستان کنگال ہو کر رہ گیا ہے۔آزادی کے پچھتر سال بعد ایک کنگلا پاکستان قطعی طور پرہمارے لیے باعث فخر نہیں ہے۔