خبرنامہ

آزادی کے 75 سال‘ ایک سیاسی منظر نامہ …. اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

آزادی کے 75 سال‘ ایک سیاسی منظر نامہ …. اسد اللہ غالب

بد قسمتی سے ہم آزادی کی 75ویں سالگرہ سینہ چوڑا کرکے اور سر اونچا کرکے منانے کے قابل نہیں ہیں۔اسلامیانانِ ہند نے جس آزاد سرزمین کے لیے ان گنت قربانیاں دی تھیں اور جسے اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کا ایک نمونہ بننا تھا‘مگر آزادی کے 75سالوں میں ہم ایک لمحے کے لیے بھی اسلام کو گلے نہ لگا سکے،نہ جمہوریت پر گامزن رہ سکے اور نہ ہی فلاحی معاشرے کے خواب کی تعبیر دیکھ سکے۔آج اسلام کی جگہ پاکستان میں لبرل ازم ہے۔میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگ رہے ہیں،اسلام کو نکاح طلاق اور جنازوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔جمہوریت کی جگہ انتشار دیکھنے میں آرہا ہے۔اور فلاحی مملکت در حقیقت لوٹ کھسوٹ،کرپشن،منی لانڈرنگ اور چوری ڈکیتی کا عملی نمونہ بن کر رہ گئی ہے۔پاکستان کے ابتدائی چند برسوں میں طوائف الملوکی کا دورہ رہا۔رات کو ایک پارٹی حکمران ہوتی تھی،صبح ہوتی تو کوئی نئی پارٹی حکومت سنبھال چکی ہوتی تھی۔بھارتی وز یر اعظم پنڈت نہرو پریہ پھبتی کسی کہ وہ سال میں اتنے پاجامے نہیں بدلتے جتنی پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں۔صد افسوس کہ پاکستان شروع کے برسوں میں کسی متفقہ آئین سے بھی محروم رہا۔54,56 اور62میں آئین کے نام سے چند کتابیں تو چھپیں لیکن ان پر عمل درآمد کرنے کی نوبت نہ آئی۔بہت بعد میں 73ء کا ایک دستور بنا جسے پاکستان کا پہلا متفقہ آئین قرار دیا گیا۔مگر جیسے ہی یہ آئین نافذ ہوا،اس میں سے بنیادی حقوق کی شقیں معطل کردی گئیں جو کہ آئین کی روح اور بنیاد ہوتی ہیں۔
پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں بنا تھا اور اس میں جمہوریت کو عملی طور پر نافذ بھی کیا جانا تھا۔مگر قیام پاکستان کو ایک عشرہ بھی مکمل نہ ہوسکا تھا کہ یہاں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔اس مارشل لاء کے بطن سے صدارتی نظام نکلا اور وہ بھی قائد اعظم کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دے کر۔اس مارشل لاء یا صدارتی نظام نے ملک نے مغربی اور مشرقی حصے میں اس قدر فاصلے بڑھا دیے کہ اگلے مارشل لاء کے دور میں ملک دو ٹکڑے ہو کر رہ گیا۔سقوط ِڈھاکہ کا زخم اس قدر گہرا تھا کہ ہم آج تک اس سے جانبر نہیں ہو سکے نہ ہم نے اس سانحے سے کوئی سبق سیکھنے کی کوشش کی۔اور وفاقیت کو مزید کمزور کرنے کے لیے دو مرتبہ مزید مارشل لاء لگایا گیا۔کہنے کو پاکستان چار اکائیوں پر محیط ہے لیکن سب سے بڑا صوبہ پنجاب اور ا سکی بیوروکریسی ملکی نظام پر حاوی ہے۔جس کی وجہ سے بلوچستان،اندرون سندھ،جنوبی پنجاب،اور ملک کے دوسرے حصوں میں احساس محرومی کا کینسر پھیل رہا ہے۔دوسری طرف آئین میں اٹھارویں ترمیم نے ملک کو عملی طور پر چار خود مختار حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔اب یہ کوئی معجزہ ہی ہے کہ ملک پھر بھی وحدت کی رسی سے بندھا ہوا ہے۔
اگر ہم بھٹو،بے نظیر،نواز شریف،زرداری اور عمران خان کے دور حکومت کاجائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان میں سے کوئی حکومت بھی اپنی آئینی ٹرم پوری نہیں کر سکی۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس ملک میں مارشل لاء حکمران گیارہ گیارہ برس تک اقتدار میں رہے لیکن آج تک پاکستان کا کوئی وزیر اعظم اپنے عہدے پر پانچ سال تک قائم نہیں رہ سکا۔جس کی وجہ سے ہمارا جمہوری چہرہ مسخ ہو چکا ہے۔اس سیاسی عدم استحکام نے ملک میں انتشار کو ہوا دی ہے اورپاکستان کے دشمنوں کو موقع مل رہا ہے کہ وہ ہماری جڑیں کھوکھلی کر سکیں اور ہمارے مستقبل کو تاریک کر کے رکھ دیں۔یہ بھی ایک عجوبہ ہے کہ ہمارے جمہوری حکمرانوں نے آپس میں ایسی دھینگامشتی کی کہ وہ ایک دوسرے کی حکومتیں الٹتے پلٹتے رہے۔اس کے نتیجے میں ’لڑتے لڑتے ہوگئی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دُم‘والی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔نواز شریف اور محترمہ بے نظیر نے اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے میثاق جمہوریت بھی کیا مگر مشرف کی حکومت کے جانے کے بعد وہ اس معاہدے پر عمل نہ کر سکے۔اور پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے سر توڑ کوشش کی۔مگر نہ جانے وہ کیا راز ہے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے علاوہ ملک کی دیگر بارہ،تیرہ سیاسی پارٹیا ں بھی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو گئی ہیں اور انہوں نے عمران خان کی حکومت کو چلتا کر دیا ہے۔ مگر اس سے جمہوری استحکام کے آثار اس لیے نظر نہیں آتے کہ وفاق میں تو اتحادی حکومت قائم ہے لیکن پنجاب،خیبر پختونخوا،گلگت بلتستان،آزاد کشمیر کسی حد تک بلوچستان میں پی ٹی آئی کی حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ظاہر ہے وفاق اور ان صوبائی حکومتوں کے درمیان تعلقات کار قابل رشک نہیں ہیں۔جس کی وجہ سے سیاسی انتشار کو ہوا مل رہی ہے۔جب تک عمران کی حکومت قائم رہی تو انہوں نے کرپشن کے خاتمے کے نام پر سیاسی مخالفین کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی اور انہیں قید وبند کا نشانہ بنائی رکھا۔اور اب مکافات عمل کا بگل بجنے کو ہے۔
ہمارے سیاسی قبلے کا رخ متعین نہیں ہے۔کبھی ہم پارلیمانی جمہوریت کی مالا جپنے لگ جاتے ہیں۔کبھی ہمیں صدارتی نظام کی یا د ستاتی ہے۔تو کبھی امیر المومنین بننے کی خواہش ہمارے دلوں میں مچلنے لگتی ہے۔اور کبھی ہم مارشل لاء کے آگے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔پچھتر سال بعد بھی ہم فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہمارا سیاسی نظام کون سا ہونا چاہئے،بانیان پاکستان نے ملک کو اسلام کی ایک تجربہ گاہ کے طور پر تشکیل دیا تھا لیکن یہاں باقی سب کچھ ہے صرف اسلام ہی دور دور تک نظر نہیں آتا۔اس فکری اور سیاسی انتشار پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔