خبرنامہ

جمعرات سے آگے۔۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

آج بدھ ہے، یہ دن گزرے گا تو جمعرات کا دن آئے گا۔
اگر جمعرات کو سودمند بنانا ہے تو بدھ کا دن امن سے گزارنا پڑے گا، تحریک انصاف اور حکومت دونوں کی یہ ذمے داری ہے کہ آج صورت حال بگڑنے نہ پائے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کوایک راستہ دیا تھا کہ دھرنا دینا ہے تو مقررہ جگہ پر دے لیں، اسی عدالت نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ کنٹینر نہیں لگائے گی مگر حکومت نے اس حکم کی پرواہ اور پیروی نہیں کی، کنٹینر بھی لگے، اور چند نئے ہتھکنڈے بھی آزمائے گئے کہ صاف شفاف سڑکوں پر مٹی اور ریت کے پہاڑ گاڑ دیئے گئے، ایک نرالی ترکیب یہ نکالی کہ موٹر وے میں گڑھے کھود دیئے اور یوں خیبر پی کے کا رابطہ باقی پورے پاکستان سے کاٹ دیا گیا۔آنسو گیس اور گرفتاریاں تو معمول کی بات ہیں لیکن عدالت نے اس سے بھی منع کیا تھا۔ ہر کوئی پکڑا گیا، کسی کے قبضے سے شراب برآمد کی، کسی کی ڈگی سے کلاشنکوفیں نکال کر دکھائی گئیں اور کسی گاڑی میں آنسو گیس کے شیل،انہیں چلانے والی گنیں اوربلٹ پروف جیکٹس بھی۔
میرا خیال ہے کہ حکومت پھر بھی رحمدل ہے، اس نے ابھی تک گولی نہیں چلائی، اور سڑکوں پر بارودی سرنگیں نصب نہیں کیں۔مگر اسوقت خبریں چل رہی ہیں کہ پورے پنجاب سے کمک بھیجی جارہی ہے، تاکہ ا سلام آباد میں انسان تو کیا کوئی مکھی تک پر نہ مار سکے۔
ابھی یہاں تک پہنچا ہوں کہ انٹی کلایمیکس سامنے آ گیا، عمران گھر سے نکلا،اس نے کہا کہ ہمیں وہ کامیابی مل گئی ہے جس کے لئے دھرنے کا فیصلہ کیا تھا،ا ور کامیابی یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں وزیر اعظم کی تلاشی کا عمل شروع ہو گیا ہے، اس پر عمران نے لاک ڈاؤن کو جشن اور یوم تشکر میں بدل دیا۔
لاک ڈاؤن اور یوم تشکر میں فرق کیا ہے، وہ بھی اس صورت میں کہ لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ ساری رکاوٹیں ہٹا لی جائیں اور قیدیوں کو رہا کیا جائے،اس حکم کو بھی عمران نے اپنے جشن کا سبب بنا لیا ہے۔ مگر وہ کہتا ہے کہ یوم تشکر منانے کے لئے بھی دس لاکھ افراد ہی جمع ہوں گے، دس لاکھ افراد یوم تشکر منانے آئیں گے اور وہ فتح کے جشن سے بھی سرشار ہوں تو کیا یہ لاک ڈاؤن والی حالت نہیں بنے گی، عمراں نے خود مسکراتے ہوئے کہا ہے کہ پتہ نہیں پریڈ ڈے میں دس لاکھ افراد نہ سما سکے تو وہ کدھر کدھر نکل جائیں۔
خواجہ سعد رفیق نے عمران کے فیصلوں کا خیر مقدم کیا ہے ، کرنا بھی چاہئے تھا، ایک بلا تھی جو حکومت کے سر سے ٹل گئی، مگر بدھ کے سورج نے بہر حال طلوع ہونا ہے اور دس لاکھ افراد نے بھی اسلام آباد کا رخ کرنا ہے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے، وہ کچھ جس کے نہ ہونے کی لوگ دعائیں کر رہے ہیں۔بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سرکار کے ذہن سے یہ شک نکل گیا ہے کہ تحریک انصاف کے پیچھے خفیہ ہاتھ کار فرماہے یا کوئی تیسری قوت دھرنے کا فائدہ ا ٹھا سکتی ہے۔
تیسری قوت والا خدشہ یا اندازہ تو درست ثابت ہوا ہے اور یہ تیسری قوت عدلیہ کی شکل میں سامنے آئی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی، تحریک انصاف کے کارکنوں سے پولیس اور ایف سی کی زیادتیاں حد سے بڑھتی چلی جا رہی تھیں ، ادھر دو نومبر بھی قریب آ رہی تھی، عدلیہ متحرک ہوئی ، اس نے دو نومبر سے صرف دو دن پہلے سرگرمی کا مظاہرہ کیا اور یکم نومبرتک وہ فیصلے کر دیئے جن کی وجہ سے دھرنے کا بھوت بھی ہوا ہو گیا اور تحریک انصاف کے کارکنوں کو پولیس تشدد سے بھی نجات ملنے کی صورت پید اہوئی، خدا کرے کہ عدلیہ کے فیصلوں پر من و عن عمل کیا جائے، حکومت بھی کرے اور تحریک انصاف بھی کرے۔
ویسے سات ماہ کیوں ضائع ہوئے،عدلیہ بہت پہلے بھی مداخلت کرسکتی تھی مگرا س نے ٹی او آرز کی تشکیل کے لئے اس کیس کو ڈیفر کر دیا، نہ ٹی اورآرز بنے ، نہ عدلیہ کو کردار ادا کرنے کا موقع ملا، اب عدلیہ کو علم ہے کہ ٹی اوآرز پر اتفاق رائے نہیں ہو گا،ا سلئے ا سنے کہہ دیا ہے کہ بصورت دیگر وہ خود ٹی اورآرز اور اگلا لائحہ عمل تشکیل دے لے گی، میری رائے میں یہ بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا، کیس کی نوعیت انتہائی سنگین تھی، صرف حکومت پر نہیں، اپوزیشن قیادت پر بھی الزامات تھے اور دیگر کاروباری ا ور صنعتی شخصیات بھی پانامہ میں ملوث تھیں ، کرپشن کے ا س کوہ قاف کو رستے سے ہٹائے بغیر آگے بڑھنا ممکن ہی نہ تھا ، اور یہ پہاڑ اس طرح ہٹ سکتا ہے کہ عدلیہ یہ فیصلہ کر دے کہ پانامہ لیکس جھوٹ کا پلندہ ہے اورا سے ردی کی ٹوکری کی زینت بنا دیا جائے، یا پھر وہ برے کو ا سکے گھر تک پہنچا کر دم لے ۔ میرا نہیں خیال کہ ا س کے بعد بھی عمران اپنی ضد پر اڑا رہے، اڑا رہے گا تو یکہ و تنہا ہو گا۔پھر کوئی چوتھی قوت اس کی مدد کو نہیں آئے گی، میں نے کل ہی کہہ دیا تھاکی عدلیہ نے اسے باعزت واپسی کا رستہ دے دیا ہے اور آئندہ بھی عدلیہ ہی ا س ساری سر دردی کا علاج کر سکتی ہے۔
میں ابھی دھند کو صاف ہوتے نہیں دیکھتا،اسکے لئے مجھے بدھ کے دن پرنظر رکھنی ہے اور جمعرات کو عدالت میں تما م فریقوں کے رویوں کا بھی مشاہدہ کرنا ہے، اگر کسی بھی فریق نے عدلیہ کے دائرہ اختیار کا سوال اٹھا دیا جو کہ بے بنیاد سوال نہیں ہے تو پھر اس ملک میں دما دم مست قلندر کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ اب بھی ایک فوجی کرنل اور تین ماہ کی ایک بچی شہادت سے ہمکنار ہوئے ، ایک فوجی میجر زخمی پڑے ہیں اور نجانے پی ٹی آئی کے کتنے کارکن لاٹھیوں اور آنسو گیس کے شیلز سے گھائل ہوئے پڑے ہیں۔
بات ختم ہو رہی تھی کہ وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس آ گئی۔انہوں نے پرویز خٹک کے احتجاج کے حق اور انداز کو چیلنج کیاا ور وہ بھول گئے کہ ان کی پارٹی کے پنجاب کے چیف منسٹر نے کئی ماہ تک اس وقت کی وفاقی حکومت کے خلاف موم بتی آفس قائم کیا اور ایک جلسے میں اعلان کیا کہ وہ زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے، ایسی بات تو پرویز خٹک نے نہیں کی تھی۔
چلئے یہ خطرہ ٹل گیا ہے تو ضرور یوم تشکر منایا جائے مگر اصل یوم تشکر اس روز منایا جانا چاہئے جب ایک خبر کی اشاعت پر حکومت ا ور فوج کے تعلقات معمول پر آجائیں گے۔اس مسئلے پر میں بہت کچھ کہہ سکتا ہوں لیکن یہ میرے اخبار کا مسئلہ نہیں، کسی دوسرے اخبار کا مسئلہ ہے،ا سلئے وہ اخبار جانے اور متعلقہ حلقے جانیں مگر ایک شہادت مجھ پر فرض ہے کہ یہ کہہ دوں کہ پرویز رشید کسی خبر کو رکوانے کی طاقت نہیں رکھتے، وہ زیادہ سے زیادہ اس خبر کے مندرجات کی تردید کر سکتے تھے اوروہ انہوں نے کر دی ، پرویز رشید تو ایک شریف انسان ہیں ، یہاں اتنے پاور فل ادارے ہیں کہ وہ بھی کسی خبر کی ا شاعت کو رکوانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔میں نے اپنے مرشد مجید نظامی کی کئی مثالیں دی تھیں مگر ان میں یہ بھی خوبی تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرنے کی پیش کش کر دی تھی، وہ ای سی ایل سے نام نکلوا کر بیرون ملک نہیں بھاگے تھے۔
بہر حال یہ مسئلہ پانامہ لیکس سے زیادہ سنگین ہے اور ا سکی تحقیق پر بہت زیادہ وقت ضا ئع کیا جا چکااور اب بھی نظر آ رہا ہے کہ تاخیری حربے استعما ل کئے جائیں گے۔ یہ رویہ پانامہ لیکس سے بڑا بحران جنم دے سکتا ہے، اس سے بچنے کی ہر کسی کو ۔کوشش کرنی چاہئے۔