خبرنامہ

جمہوری نظام بھی لانگ مارچ کے نشانے پر

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

جمہوری نظام بھی لانگ مارچ کے نشانے پر
لانگ مارچ والے مولانا پہلے روز سے ایک ہی مطالبہ داغ رہے ہیں کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں اور نئے الیکشن فوج کی دخل ا ندازی کے بغیر کروانے کاا علان کیا جائے۔
وزیر اعظم کو منتخب کرنے اور چلتا کرنے کا طریقہ آئین میں درج ہے اور اس کے لئے پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سڑکوں پر دھماچوکڑی مچا کر کسی وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے کا طریقہ قانون اور آئین سے ماورا ہے۔
مولانا کے پا س کوئی دلیل نہیں کہ وزیر اعظم کیوں استعفیٰ دیں۔صرف یہ کہہ دینے سے کہ پچھلا الیکشن دھاندلی زدہ تھا کوئی وجہ جواز نہیں کہ ا سکی بنا پر سسٹم لپیٹ دیا جائے اور وہ بھی الیکشن کے ڈیڑھ سال بعد۔ اس دوران نہ تو مولانا نے کوئی الیکشن کمیشن میں رٹ دائر کی نہ کسی عدالت میں جا کر دھاندلی کا ثبوت فراہم کیا،نہ کبھی کسی عدالتی کمیشن کی تشکیل کامطالبہ کیا۔ پارلیمنٹ میں ایک کمیٹی اس مقصد کے لئے ضرور بنائی گئی تھی مگر اپوزیشن کبھی اس میں کوئی شکائت لے کر نہیں آئی۔ الیکشن کے دوران بھی ریٹرننگ افسروں کے سامنے شکایات درج کرائی جا سکتی ہیں مگر ایسا بھی کبھی نہیں ہوا تو پھر مولانا کی زبان سے نکلا ہوا لفظ تو کوئی ثبوت نہیں اور نہ اسے قانون اورآئین کے تحت سند کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے۔ مولاناکوئی مذہبی فتویٰ بھی جاری نہیں کر سکتے کیونکہ کاروبار ریاست ا ور حکومت فتووں سے نہیں، آئین کے تحت چلایا جا رہا ہے۔مذہبی طور پر مولانا کا جاری کردہ فتویٰ ملک کے تمام فرقوں کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ ان کے دھرنے میں صرف ایک فرقے کے لوگ ہیں اور ایک خاص قومیت کے لوگ۔یہ نہ تو سبھی فرقوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ نہ ملک کی تمام قومیتوں کی۔ اس لئے مولا نا کا اصرا ر ایک ضد اور ہٹ دھرمی کے مترادف تو ہو سکتا ہے۔ اسے آئینی اور قانونی چھتری میسر نہیں۔
محض یہ کہنا کہ لانگ مارچ میں لاکھوں افراد شامل ہیں اور ان کا مطالبہ نہ مانا گیا تو وہ خود وزیر اعظم کو ان کے گھر جا کر گرفتار کر سکتے ہیں۔یہ سب کچھ انارکی، بغاوت، غدرا ور انتشار کی نشانی ہے۔ آج مولانا ایک مجمع اکٹھا کر کے کسی وزیر اعظم کو گرفتار کر لیں تو کل کو دوسرا لیڈر اتنا ہی مجمع اکٹھا کر کے اگلے وزیر اعظم کو ایوان وزیر اعظم میں جا کر ہتھکڑی لگا لے گا تو مولا نا اسے کس دلیل سے روکیں گے اور یہ سلسلہ یوں چل نکلا تو ملک میں کونسی حکومت چل پائے گی۔ طوائف الملوکی کا عالم ہو گا۔ قائد اعظم کے فوری بعد اسی طوائف الملوکی کا مظاہرہ ہوااور پاکستان سے سیاست اور جمہوریت کی بساط ایک عشرے کے لئے لپیٹ دی گئی اور پھر یہ راستہ ایک بار کھل گیا توبار بار کھلتا رہاا ور ملک اپنی آزادی کی تاریخ کا نصف عرصہ جمہوریت سے محروم رہا۔ ایک وزیرا عظم کو گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ دوسرے وزیر اعظم کو پھانسی دی گئی، ایک سابق خاتون وزیر اعظم کو دہشت گردوں نے اڑا دیا اور تین بار وزیر اعظم رہنے والا کئی بار جیلوں میں دھکیلا گیا۔ مولا نا اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیاسی کشا کش کی وجہ سے آج تک کسی و زیر اعظم کو اپنی آئینی ٹرم تک مکمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ لڑتے لڑتے ہو گئی گم، ایک کی چونچ اور ایک کی دم۔ اس انجام کو دیکھ کر میثاق لندن ہوا مگر وہ بھی زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔
ماضی میں لانگ مارچ، دھرنے اور جلسے جلوس ہوتے رہے اور ان کے بھیانک نتائج سبھی کوبھگتنے پڑے۔ملکی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج تحریک نظام مصطفی کے نام پر کیا گیا جو بھٹو کے خلاف تھا۔ اس نے بھی نئے الیکشن کا مطالبہ کیاا ور اپنے اقتدار میں آنے کی صورت میں ستر کی قیمتیں واپس لانے کا وعدہ کیا۔ اس تحریک میں شامل قوتیں بھٹو کو ہٹانے میں یوں کامیاب ہوئیں کہ ملک ایک اور طویل مارشل لاء کے ہتھے چڑھ گیا۔ نظام مصطفی کی کئی جماعتیں نئے مارشل لاکے ساتھ شریک اقتدار تو ہوئیں مگر ستر کی قیمتوں کی واپسی کاوعدہ ایفا نہ کیا گیا۔ اسلام آباد میں ایک جلوس نوابزادہ نصراللہ بھی لے کر گئے مگر کئی لاشیں گرنے کے بعد ٹھپ ہو گئے۔ یا ٹھس ہو گئے۔ شاید انکا مقصد لاشوں کی سیاست کرنا تھا۔ عمران خان اور طاہرالقادری کادھرنا ملکی تاریخ میں طویل ترین تھا مگر پشاور کے ایک المناک حادثے کی وجہ سے یہ نتائج حاصل کیے بغیر ختم ہو گیا۔ اب مولانا قسمت آزمائی کے لئے نکلے ہیں۔ وہ کیا چاہتے ہیں۔ لاشوں کی سیاست کریں گے۔ انتشار اور طوائف الملوکی کا سبب بنیں گے یا کسی نئے مارشل لا کی راہ ہموار کریں گے۔ وہ کہتے تو ہیں کہ مارشل لا لگانے والوں سے بھی لڑیں گے مگر مصر میں مارشل لا لگانے والوں سے مصری عوام نہیں لڑ سکے۔ ترکی کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہاں عوام ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو گئے مگر ترکی میں فوجی بغاوت ایک ڈھکوسلاتھا۔ ایک بار چین کے نوجوان شہر کے تائنا من چوک میں ٹینکوں کی طویل قطار کے سامنے تن کر کھڑے ہوئے۔ مغربی میڈیا نے ان کی تصاویر چلائیں مگر کچھ پتہ نہ چلا کہ ان ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہونے والے نوجوانوں کا کیا حشر ہوا۔ اس واقعے کو چالیس برس ہو چلے ہیں اور چین میں جو نظام جاری تھا، آج بھی وہی چل رہا ہے۔ثابت یہ ہوا کہ ریاست کی طاقت سے ٹکرانا کسی کے بس کی بات نہیں، اور نہ ایسا کرنے پر کسی کو اکسایا جائے۔ پاک فوج نے پرویز مشرف کے بعد سے سیاست سے دوری اختیار کرر کھی ہے اور دہشت گردی کی جنگ میں جانیں نچھاور کی ہیں۔ مغربی سرحدپر افغان ان پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور کنٹرول لائن پر بھارتی بوفورس توپیں ان کے مورچوں کو ریزہ ریزہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور کبھی کوئی ابھی نندن چڑھائی کر دیتا ہے۔ کیا فوج کو اس ڈیوٹی سے ہٹانا مقصود ہے تاکہ ہمارے دشمن ہمیں تر نوالے کی طرح ہڑپ کر لیں۔
کیا معلوم مولانا کے لانگ مارچ کے کیا کیا مقاصد ہیں۔مگر ایک مقصد واضح ہے کہ جمہوری نظام کو برباد کر کے رکھنا ہے۔ ثابت کرنا ہے کہ ہم جمہوریت کے اہل نہیں۔ ہم تہذیب اور تمدن سے الرجک ہیں۔ہم بہتر سال بعد بھی ایک قوم نہیں بن سکے بلکہ ایک ریوڑ ہیں جنہیں کوئی بھی لاٹھیوں، ڈنڈوں سے ہانک سکتا ہے۔مولانا کے ان عزائم سے کوئی بھی ذی شعور اتفاق نہیں کر سکتا۔ مولا نا کا فرض بنتا ہے کہ انہوں نے ایم ایم اے کے زمانے میں کسی خلل کے بغیر حکومت چلائی اورآٹھ سال تک کشمیر کمیٹی کی کرسی سے بھی وہ چمٹے رہے اور انہیں وہاں سے کسی نے ہلایا تک نہیں۔ اسی طرح وہ موجودہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں گھر بیٹھ کر آرام کریں اور اگلے الیکشن میں ووٹروں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں۔اگر انہیں پارلیمنٹ میں اکثریت مل گئی تو پانچ سال تک حکومت کریں ورنہ کسی کے ساتھ شرکت اقتدار کے مزے لوٹیں اور یہ بھی نہ ہو سکے تو پھر اپوزیشن بنچوں پر صبر اور شکر سے ا ٓرام فرمائیں۔
مولانا یقین رکھیں اور خاطر جمع رکھیں کہ ان کو حکومت اور ریاست، انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دے گی، اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ جن راستوں سے وہ ا سلام آباد تک پہنچے ہیں، وہی راستے ان کی واپسی کے لئے کھلے ہیں۔کوئی دوسرا راستہ اختیار کیا گیا تو جمہوری اور سیاسی عمل بھول بھلیوں میں کھوجانے کا خدشہ ہے۔ کیا مولانا یہی چاہتے ہیں؟