خبرنامہ

عمران کے لئے باعزت واپسی کا راستہ۔۔اسداللہ غالب۔۔انداز جہاں

عدالت نے عمران خان کو ایک آخری چوائس دے دی ہے کہ وہ ا س مقام پر جلسہ کر سکتا ہے جو اس مقصد کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔
مگر آگے بڑھنے سے پہلے ذراماضی میں جھانک لیجیئے۔
پاکستان کی سیاست بارہ اکتوبر ننانوے کے جال میں پھنس کر رہ گئی ہے اور اس سے نکلنے کے لئے اسے ایک ہی راستہ نظرآتا ہے ، وہ جو ترکی میں طیب ا ردوان کے حامیوں نے اختیار کیا اور وہ فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے لئے ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔دو روز پیشتر ترکی کا یوم جمہوریہ تھا، اس موقع پر پنجاب کے چیف منسٹر نے ایک تقریب منعقد کی اور ترک عوام کو جمہوریت بچانے پر ایک بار پھر مبارکباد پیش کی، اس طرح کی مبارکبادیں وہ کئی بار پیش کر چکے ہیں۔
تو اصول یہ ٹھہرا کہ پاکستان کی جمہوریت کو بچانے کے لئے بھی ٹینکوں کے آگے لیٹنا پڑا تو یہ کر گزرنا چاہئے مگر سوال یہ ہے کہ کیا مشرف کی رخصتی کے بعد جنرل کیانی اور اب جنرل راحیل جمہوریت کی بساط لپیٹنا چاہتے ہیں۔ جنرل کیانی نے ایسانہیں کیا ، ہاں حکومت سے ان کا تصادم ضرور ہوتا رہا۔ایساتصادم تو حکومت اور پٹواریوں کے درمیان بھی ہو جاتا ہے۔ جنرل راحیل نے اپنی ٹرم کے دوران اپنے کام سے کام رکھا، میں ان کا وکیل صفائی نہیں ، نہ نیتوں کو جانتا ہوں مگر جنرل راحیل ملک کودر پیش اندرونی اوربیرونی سیکورٹی خطرات کے اس قدر دباؤ میں ہیں کہ وہ حکومت کو نقصان پہنچانے کا خیال لانے کے لئے وقت ہی نہیں نکال سکتے۔
دوسری طرف مگر حکومت ہے جسے یہ وہم لاحق ہے یا اس کے پاس کوئی ٹھوس شواہد ہیں کہ فوج اس کے لئے خطرہ ہے، جب جنرل پاشا رخصت ہوئے تو چودھری نثار سے ان کی رخصتی پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا، چودھری صاحب جو اپنے آپ کو خاندا نی فوجی کہتے ہیں ، وہ یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ انہیں ایک سیاسی پارٹی سے ہمدردی ہے جو جنرل پاشا کی رخصتی سے یتیم ہو گئی ہے۔ظاہر ہے کہ ایک وزیر داخلہ کے پاس ضرور شواہد ہوتے ہیں اور کچھ شواہد میں نے بھی سنے ہیں مگر میں صحافتی اخلاقیات کے تحت ان کو افشا نہ کرنے کا پابند ہوں مگر اتنا کہہ دوں کہ چودھری شجاعت اور عمران خان ان شواہدکو اخبار نویسوں سے نہیں چھپاتے۔
میں ننانوے میں اس پوزیشن میں تھا کہ فوج اور حکومت کے عزائم معلوم کرلیتا اور مجھے ہی نہیں ،ملک کے ہر شخص کو علم تھا کہ مشرف اور نواز شریف میں ٹھنی ہوئی ہے ،مجھے ایک فوجی افسر نے طنزیہ لہجے میں یہ بھی بتایا تھا کی جیلوں کی صفائی کروا لی گئی ہے مگر فرام ہارسز ماؤتھ کچھ جاننے کے لئے مجھے چودھری محمد سرور کا سہارا لینا پڑا جو کشمیر پر برطانوی پارلیمنٹ کے ایک وفد کے ساتھ پاکستان آئے ہوئے تھے، میں نے ان کی ایک ملاقات آئی ا یس پی آر کے دفتر میں جنرل راشد قریشی سے کروائی اوروہاں سے انہیں جنرل مشرف نے گاڑی بھجوا کر اپنے پاس بلا لیا ، وہ بیس منٹ بعد ہی واپس آگئے، ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ اسی صبح میں، مشاہد حسین کے ذریعے ان کی ملاقات وزیرا عظم نواز شریف سے ناشتے پر کروا چکا تھا، میں نے چودھری سرور سے پوچھا کہ دونوں طرف کیا دیکھا، وہ منہ سے کچھ نہ بولے مگر اشارے سے کہنے لگے کہ فریقین ایک دوسرے کاگلا کاٹنے کی فل تیاری میں ہیں۔ اس ملاقات کے ٹھیک پندرہ دن بعد نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی تھی گو انہوں نے اسے بچانے کی اپنی سی ہر ممکن تدبیر کر دیکھی مگر الٹی ہو گئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ دو ہزار چھ میں مجھے مشرف نے ملاقات کے لئے بلایا ۔ یہ ملاقات آرمی ہاؤس میں ہوئی، ملاقات سے قبل مجھ سے راشد قریشی نے پوچھا کہ کیا دیکھ رہے ہو، میں نے کہا کہ اس وقت آپ کسی کو میرے لئے چائے کا کپ لانے کو کہیں اور وہ آپ کی نہ سنے تو مجھے ا س پر کوئی حیرت نہ ہو گی ۔
آج میں ا س پوزیشن میں نہیں ہوں ، حکومت اور فوج دونوں کا مجھ سے پردہ ہے، اور یہ ایک لحاظ سے اچھا ہے۔جو اچھا کرے۔ اسے اچھا کہہ سکتا ہوں اور جو غلط کرے، اس پر تنقید کر سکتا ہوں ، پارٹی بننے پر مجبور نہیں۔
چودھری نثار کہہ چکے ہیں کہ عمران خان چڑھائی کر رہے ہیں،دارالحکومت کو بند کر نے کا ارادہ رکھتے ہیں، یہ سب کچھ عمران نے خود بھی کہا ہے، اس کے پیش نظر چودھری نثار کہتے ہیں کہ اگرا نہیں خبر ہو کہ کوئی دارالحکومت کا محاصرہ کرنے پر تلا ہو اہے تو وہ ا سے روکنے کے آئینی طور پر پابند ہیں اور سارے انتظامات اسی مقصد کے لئے ہیں۔
حالات کو خراب کرنے میں پرویز خٹک کے اس بیان نے اہم کردار ادا کیا ہے کہ اگر انہیں زیادہ مجبور کیا گیا تو وہ باغی بن جائیں گے، حکومتی سائیڈ کہتی ہے کہ یہ بغاوت کاکھلا اعلان ہے۔اب حکومت کی کوشش یہ ہے کہ وہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو اس قابل ہی نہ چھوڑے کہ وہ دارالحکومت تک پہنچ سکیں۔ اس کے لئے وہ شہر شہر ناکے لگا رہے ہیں،رستے بند کئے جا رہے ہیں،کنٹینروں کا جال بچھا دیا گیا ہے، مہذب دنیا میں ایک پیلی پٹی لگا کر آخری حد مقرر کر دی جاتی ہے کہ اس سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا، جلوس وہاں بھی لاکھوں کے نکلتے ہیں، ان کو روکنے کے لئے کنٹینر نہیں لگائے جاتے ،اس لئے کہ وہاں کوئی یہ نہیں کہتا کہ وائٹ ہاؤس بند کردوں گا، یاٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ بند کر دوں گا۔پاکستان کے نئے سیاسی کھلاڑی بپھرے ہوئے ہیں، ان کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے محترم جج کو بھی کہنا پڑا ہے کہ وہ تمیز سیکھنے کی کوشش کریں۔مگر عدالت نے ایک راستہ ضرور کھول دیا ہے کہ اگر تحریک ا نصاف صرف جلسہ کرنا چاہے تو اسے معین مقام پر اس کی اجازت ہے مگر اس کے سوا وہ کچھ کریں تو ظاہر ہے حکومت کو اسے روکنے کا اختیار ہو گا، میں کہتا ہوں کہ اختیار ہی نہیں، فرض بھی ہو گا۔میرے گھر کا بھی کوئی رستہ بند کرے تو میں حکومت ہی کی مدد چاہوں گا۔
حکومت سے مجھے یہ عرض ضرور کرنا ہے کہ وہ پر امن طور پر ہی لوگوں کا راستہ روکے اور قانون کے دائرے کے اندر رہ کر ہی اپنی کاروائی کرے، اگرچہ حکومت کہتی ہے کہ پشاور سے آنے والے قافلے اسلحے اور آنسو گیس کے شیلوں سے لیس ہیں مگر پھر بھی وہ ٹینکوں پر سوار نہیں ہیں،ا سلئے چودھری نثار جو بھی کاروائی کرنا چاہیں ، وہ کارکنوں کو رو کنے کے لئے ہی کریں ، ٹینکوں ، توپوں یا گن شپ ہیلی کاپٹروں سے مقابلے کی تیاری تو نہ کریں، سیاسی کارکن اس قابل نہیں ہوتے، وہ لڑتے بھڑتے ضرور ہیں مگر ریاستی طاقت سے نہیں ٹکرا سکتے، ریاست کے پاس ٹینک، توپیں اور گن شپ ہیلی کاپٹر ضرور موجود ہوتے ہیں اور انہیں دہشت گردوں کے خلاف کامیابی سے استعمال بھی کیا گیا ہے۔بھٹو دور میں یہ غلطی کی گئی تھی کہ عوام کے مقابل فوج طلب کر لی گئی تھی، ایک دن تو فائرنگ ہو گئی مگر اگلے روز فوج نے عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دیا ، ان فوجیوں کے خلاف کورٹ مارشل ہو گیا مگر بہر حال فوج کو عوام کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا گیا، پولیس تھی، ایف ایس ایف تھی اور پی این اے کے کارکن تھے۔ آج بھی پولیس کو ہی آگے کیا جائے، اور اگر حکومت کے پاس واقعی تحریک ا نصاف کے ارادوں کے بارے میں کوئی خاص خبر ہے تو سنگین کاروائیاں کرنے سے قبل عوام کو اعتماد میں ضرور لیا جائے۔ جہاں عمران کو پرامن ا حتجاج کا حق ملا ہے ، وہاں حکومت بھی ایک حد کے اندررہنے کی مکلف ہے، آج تو کنٹینروں کی وجہ سے عام شہری بھی ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور ان کی نقل وحرکت مشکل بنا دی گئی ہے۔میں مانتا ہوں کہ یہ نوبت تحریک انصاف کی دھمکیوں نے پیدا کی ہے مگر اب عدالت نے تحریک انصاف کو باعزت واپسی کا ایک راستہ مہیا کر دیا ہے، اسے عقل کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہئے۔اور بند کر دیں گے کے نعرے بند ہو جانے چاہیءں۔ اسلئے کہ کوئی بند نہیں کرنے دے گا۔