خبرنامہ

قومی معیشت۔ لانگ مارچ کے نشانے پر

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

قومی معیشت۔ لانگ مارچ کے نشانے پر
مولانا نے وزیر اعظم پر وار کئے ہیں۔ فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کشمیر کے مسئلے کوپیچھے دھکیل دیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان کے لانگ مارچ نے عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھیننے کی کوشش کی ہے۔ جس روز سے دھرنے کاا ٓغاز ہوا ہے مہنگائی نے نئی بلندیوں کو چھولیا ہے۔ غریب آدمی جس پر گوشت اور مچھلی تو حرام ہو چکی تھی۔اب وہ دال اور سبزی خریدنے کی سکت سے عاری ہو گیا ہے۔ یہ لانگ مارچ کا عذاب ہے کہ اس ملک میں پیاز کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو چکی ہیں اور آلو جس کی کبھی قیمت لگانے کو لوگ تیار نہ تھے۔اب یہ غریب کی دسترس سے باہر ہو گیا ہے۔ لانگ مارچ نے عمران کاا ستعفیٰ تو مانگا مگر غریب کے کسی مسئلے کا ذکر کرنا مناسب خیال نہ کیا۔ فوج پر تابڑتوڑ حملے تو کئے مگر بیماروں کے علاج کو سستا کرنے کا مطالبہ کرنے کی زحمت نہیں کی، اور اور تو اور کراچی کے بعد ملک کے سب سے بڑے شہر لاہور پر چھائی ہوئی سموگ اور ملک بھر میں ڈینگی کی وبا کا تذکرہ لانگ مارچ کی زبان پر نہیں آیا۔سات روز گزر گئے مولانا کے بیانات تو سننے کو مل رہے ہیں مگر میڈیا سے کشمیر کا تذکرہ غائب ہو گیا ہے۔کسی کو علم نہیں کہ سری نگر، گلمرگ، شوپیاں، کپواڑہ اور کارگل میں کشمیریوں کی زندگی کس حد تک اجیرن ہو گئی ہے۔ میں نے آج صبح بھارتی ٹی وی پر کشمیر میں برفباری کی قیامت کی خبریں تو سنیں مگرپا کستانی میڈیا پر ایک لانگ مارچ ہے۔ مولانا ہے یا اب پرویز الہیٰ کی تصویروں کی چھاپ ہے یا پھر فوج کے ترجمان کی وضاحتوں کی تکرار ہے۔ مولانا نے کرتار پور پر بھی انگلیاں اٹھائیں مگر بھارتی پنجاب میں عالم یہ ہے کہ شہروں کے چوک میں عمران خان کی تصویروں کے بورڈ نصب ہیں۔ اگر پاکستان میں کوئی شخص مودی کی تصویر کا بورڈ لگاتا تو اب تک اس کو گردن زدنی قرار دیا جا چکا ہوتا اور ایک ویڈیو کلپ کے مطابق جالندھر کی ایک گلی میں ہر گھر پر پاکستان کے پرچم لہرا رہے ہیں، کیا ہم اپنے گھر پر بھارتی پرچم لہرانے کا خیال بھی ذہن میں لا سکتے ہیں مگر پہلے کشمیر میں پاکستانی پرچموں کی بہار تھی اور اب لگتا ہے کہ اگلے تین دنوں میں بھارتی پنجاب میں ہر سکھ کے گھر پر پاکستانی پرچم لہراتا نظر آئے گا۔ تبدیلیوں کا یہ منظر لانگ مارچ نے ہماری آنکھوں سے اوجھل کر دیا ہے۔
یہ تو ہیں گنجلک مسائل مگر ہمارے عام آدمی کے مسائل بھی لانگ مارچ نے غیر اہم بنا دیئے۔ قومی معیشت کے جو پیچیدہ مسائل میڈیا میں زیر بحث تھے اور ہمارے تاجر اور ہمارے صنعتکار بھی ان کی وجہ سے نالاں نظر آ رہے تھے، ملک قرضوں کے بوجھ میں دب گیا تھا۔ہمار روپیہ اور امریکی ڈالر پریشانی بنے ہوئے تھے، ہماری برآمدات سکڑ رہی تھیں اور درآمدات بڑھتی چلی جا رہی تھیں، قومی ترقی کے منصوبے پس پشت چلے گئے تھے اور حکومت بڑی مشکل سے معیشت کو سنبھالا دینے کی کوشش کر رہی تھی۔ ملکوں ملکوں چکر کاٹ کر قرضے اور امداد طلب کئے جا رہے تھے، ہم فوج کو ہر کا م کے لیے مورد الزام ٹھہراتے ہیں مگر جب ہم ہمارے آرمی چیف چین، سعودی عرب اور امریکہ جا کر ہمارے لئے مالی کشادگی کے راستے کھلواتے ہیں تو ہم ان کا یہ احسان بھی نہیں مانتے۔ فوج کی باہر اس لئے سنی جاتی ہے کہ اس نے دنیا کے امن کو یقینی بنانے کے لئے دہشت گردی کی کمر توڑی ہے۔ ہماری فوج اسی بنا پر جب کسی سے مالیات کی بات کرتی ہے تو اسے رد کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہوتا مگر اب لانگ مارچ بار بار فوج پر گولہ باری کرے گا تو فوج بھی اپنا کردار سکیڑنے پر مجبور ہو جائے گی اور عوام کو جو اچھی خبریں مل رہی تھیں اور اچھے دنوں کی توقع تھی۔ یہ سلسلہ بھی دھرا رہ جائے گا، لانگ مارچ کے مقاصد بھی یہی ہیں۔
موجودہ حکومت کو ناکام ظاہر کرنے والے یہ تو بتائیں کہ بھٹو نے روٹی کپڑاا ور مکان کا وعدہ تو سات سال میں بھی پورا نہ کیا۔ اور پاکستان بنانے و الی مسلم لیگ آج تک ملک کو ایک فلاحی جمہوری اسلامی ریاست بنانے کی طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکی،تو عمران خان اور اس کی پی ٹی آئی صرف ایک سال میں اپنے بائیس سالہ وعدوں کی تکمیل کیسے کر سکتے ہیں۔ پاکستانی معیشت کو بہتر سالوں سے جوگزند لگ چکا ہے۔ اسے آن واحد میں کیسے صاف کیا جا سکتا ہے۔ کرپشن کی لوٹ مار کو روکنے کے لئے کئی اقدامات نظرا ٓئے مگر جب لوٹ مار کرنے والے ایک دھیلہ واپس نہیں کریں گے تو عمران خان ملک کے خالی خزانے سے عوام کا پیٹ تونہیں بھر سکتا۔ ملک میں جس کرپٹ پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے وہ جیلوں میں اپنے لئے وی آئی پی سہولتیں مانگتا ہے پھر اپنی بیماریوں کی وجہ سے ضمانت حاصل کرتا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ علاج کے لئے وہ ملک سے باہر بھی چلے جائیں جہاں ان کے خزانوں کا ڈھیر پڑا ہے۔
مدینہ کی ریاست کے پہلے حکمران کو پتہ چلا کہ بعض لوگوں نے زکواۃ کی ا دائیگی سے انکار کر دیا ہے تو ان پر لشکر کشی کر دی گئی تھی۔ گھی ٹیڑھی انگلیوں سے ہی نکلتا ہے۔ مدینہ کی ا س ریاست کے سربراہ کا احتساب بھی ہر کوئی کر سکتا تھا اور سر عام کرسکتا تھا مگر ہمارا نظام ا نصاف چوروں اور لٹیروں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ہمارے مالی دہشت گردوں کوساری دنیا میں پناہ مل جاتی ہے۔ غریبوں کی جیب سے لوٹ مار کی کمائی سے یورپ اور امریکہ کے بینک لبالب بھرے ہوئے ہیں۔ یہ مالیاتی د ہشت گردی ہے جس کی حوصلہ افزائی اہل مغرب اور امریکی دنیا کرتی ہے مگر وہ جسے دہشت گرد کہتے ہیں ا سے ہمارے گھروں میں بھی نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔ اس ماحول میں عمران خان نے لوٹ مار کی کمائی واپس لینے کا جو عزم کیا تھا۔ ا سکی تکمیل میں مشکلات ہی مشکلات کاسامنا ہے۔ چوروں اور لٹیروں کو بچانے کے لئے ہر کوئی لانگ مارچ بھی کرتا ہے۔ دھرنا بھی دیتا ہے لاک ڈاؤن بھی کرتا ہے، شٹر ڈاؤن بھی کرتا ہے اور شاید آنے والے دنوں میں پارلیمنٹ سے استعفے بھی آ جائیں مگر یہ سب مفاد پرستی پر مبنی ہے۔ اور مفاد بھی صرف ذاتی۔ عوام کا مفاد کسی کو عزیز نہیں۔ عوام بھوک، بیماری اور بدحالی کا شکار رہیں تو ان کی بلا سے۔ لانگ مارچ والوں کے ہونٹوں پر صرف استعفیٰ ہے اور استعفیٰ۔ وہ آلو، پیاز اور دال کی قیمتوں پر کوئی بات نہیں کرتے۔ کوڑے اور کچرے کے ڈھیر سے گلی سڑی روٹی کے ٹکڑوں کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والوں کی بات نہیں کرتے۔ بیماری سے جان بلب غریبوں کی بات نہیں کرتے۔ ان بچوں کی بات نہیں کرتے جن کے پاس سکول کی فیس نہیں اور وہ بے آسرا پھرتے ہیں۔لانگ مارچ والے بوڑھے پنشنروں کی بات نہیں کرتے جن کے بنک ان کے انگوٹھے کی تصدیق نہ ہونے کا باعث ادائیگی نہیں کرتے۔