خبرنامہ

مودی کے انتخابی دعوے مگر کارکردگی ٹائیں ٹائیں فش۔۔(آخری قسط)….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

مودی کے انتخابی دعوے مگر کارکردگی ٹائیں ٹائیں فش۔۔(آخری قسط)….اسد اللہ غالب

جس تیزی کے ساتھ بھارت میں آبادی دیہات سے شہروں میں منتقل ہو رہی ہے اس سے روزگار کے ساتھ ساتھ بچوں کی معیاری تعلیم کا مسئلہ بھی سنگین ہوا ہے اور مودی حکومت اس کے حل میں بھی بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ سکولوں کی بڑی تعداد میں بچوں کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔ مودی کے بلند بانگ دعوے اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کا معیار خطیر بجٹ مختص کرنے کے باوجود بہتر نہیں ہو سکا۔یوں تعلیم کا مسئلہ بھی مودی سرکار کے زبانی جمع خرچ کی نذر ہو گیا۔ اس ناکامی کی بڑی ذمہ داری بیوروکریسی پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ بھارت میں انتظامی امور ابھی تک ایک صدی قبل کے انداز اور انصرام کے تحت چلائے جا رہے ہیں۔ وقت کے لحاظ سے خود کو اپ ڈیٹ کرنے کے بارے میں سوچا گیا ہے نہ ہی کوئی پالیسی سازی کی گئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت میں اکیسیوں صدی کی حکومت انیسویں صدی کے بوسیدہ انتظامی طریقہ کار کے مطابق ملک چلانے کی کوشش کر رہی ہے جس کی وجہ سے صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ دیگر شعبوں میں بھی حالات دگرگوں ہیں۔
بھارتی ایڈمنسٹریٹو سروس میں اس وقت پانچ ہزار افسران ملک کے جملہ امور کار چلا رہے ہیں اور یہ وہی تناسب ہے جب 1889ء میں اس رپورٹ کے راقم کے داد نے یہ سروس جوائن کی تھی۔بھارتی سیاستدان بیوروکریٹس کی تعیناتیوں اور تبادلوں کے حوالے سے بھی خاصے بے رحم ثابت ہوئے ہیں‘انہیں ایک جگہ ٹک کر کام نہیں کرنے دیا جاتا اور مسلسل تبادلوں کے ذریعے خوار کیا جاتا ہے جس سے ملکی انتظامی امور کو خاصا دھچکا پہنچتا ہے۔ سیاستدانوں کی آپس کی اس کھینچا تانی اور من پسند افسران کی تعیناتیوں کے رجحان کی وجہ سے سرکاری افسران بھی بے دلی کے ساتھ امور کار نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اول تو ان کی زیادہ تر کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی فائل کو پردستخط کئے جائیں نہ ہی کارروائی کی جائے۔ وہ معاملات کو التوا میں رکھنے کے حق میں ہیں اور اس حوالے سے وہ اپنی جگہ ٹھیک بھی دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اگر وہ کسی منصوبے کی فائل پر کارروائی شروع کر دیتے ہیں تو اس دوران ان کا تبادلہ ہو جاتا ہے اور اگلا افسر آ کر ان کے خلاف اس حوالے سے کارروائی شروع کر دیتا ہے۔ اس لئے زیادہ تر بیوروکریسی صرف وقت گزارنے کی پالیسی لے کر چل رہی ہے جس کا اچھا خاصا نقصان مجموعی طور پر ملک کو پہنچ رہا ہے۔ تاہم اوپر دیکھا جائے تو مودی سرکارسب اچھا کی پورٹ دیتے دکھائی دیتی ہے۔ وہ غیر ملکی دوروں کے دوران بھی ملک میں چین کی بانسری بجنے کی باتیں کرتے ہیں جو زمینی حقائق سے قطعی مختلف ہے۔
اس وقت بھارت میں ہائی کورٹ کی 37فیصد اور ضلعی عدالتوں کی25فیصد آسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔اس سے حکومت کی عدلیہ اور انصاف کے حوالے سے سنجیدگی کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔بھارت میں اس وقت تین کروڑ سے زائد کیس التوا کا شکار ہیں۔ ان میں سے کئی کیس عشروں پرانے ہیں اور ایسے لوگوں کو تو اب انصاف کی کوئی امید بھی دکھائی نہیں دیتی۔اس معاملے میں اگر سمت درست کر لی جاتی تب بھی بات اور تھی لیکن مودی سرکار کی ترجیحات شاید کچھ اور ہیں۔عوام عدالتوں میں برسوں سے دھکے کھا رہے ہیں یا انہیں ان کا حق نہیں مل رہا ان سب باتوں سے مودی سرکار کو کوئی لینا دینا نہیں۔بھارتی حکومت اپنے جی ڈی پی کا صرف 0.12فیصد انصاف کے نظام پر خرچ کرتی ہے۔جب عدالتوں میں جج ہی موجود نہیں ہوں گے تو سائلوں کی درخواستوں کی سماعت کون کرے گا۔ یہ مسئلہ روز بروز سنگین ہو رہا ہے اور ایک دن غبارے کی طرح پھٹ جائے گا کیونکہ مودی کے وعدوں میں سے ایک لوگوں کو انصاف کی تیز ترین سہولیات مہیا کرنا بھی تھا جنہیں مودی پس پشت ڈال چکا ہے۔
بھارت کے چھوٹے شہروں اور قصبوں کو تو ایک طرف رکھیں‘ بڑے شہر بھی نہ تو خودمختار ہیں نہ ہی اپنے معاملات حل کرنے کی کوئی امید اور سکت رکھتے ہیں۔بھارت کا امیر ترین ممبئی شہر بھی ایسے غیرمنتخب بیوروکریٹس کے ہاتھوں میں ہے جنہیں ان کی اہلیت اور استطاعت سے بھی زیادہ ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ شہروں کی انفرادی حالت نہ سنوار پانے والا مودی پورے ملک کی معیشت کو کیسے سدھارے گا یہ سوال مسلسل نریندر مودی کا پیچھا کر رہا ہے۔ بھارتی معیشت دان کہتے ہیں کہ مودی سرکار کاکاغذوں پر معاشی پالیسیاں بنانے پر تو بہت زور ہے لیکن عملی اقدامات کہیں دکھائی نہیں دیتے۔2014ء میں مودی نے ”اچھے دن“ کے نام سے ایک انتخابی مہم چلائی تھی جس میں بھارتی عوام کو سہانے سپنے دکھائے گئے تھے۔ اب جب کہ مودی کی دوسری مدت شروع ہو چکی ہے مودی اچھے دن مہم کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کر پائے اور اس کی ذمہ داری کسی اور کی نہیں بلکہ خود مودی پرعائد ہوتی ہے۔بھارت کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، وہ مودی کے مسائل میں اضافہ ہی کرے گا۔ مودی کی پالیسیاں اور انتخابی وعدے اپنی جگہ لیکن مسائل کا انبار روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
بھارت جو بنیادی طور پر اپنا مقابلہ چین کے ساتھ کرتا ہے چین جیسی پالیسیاں اپنانے کی ہمت نہیں رکھتا اور جب تک مودی سرکار اپنے طرز حکومت میں انقلابی تبدیلیاں نہیں لاتی تب تک بھارت کے لئے چین بننا ایک خواب ہی رہے گا۔ بھارت کی معیشت خود مودی کے مخالف چل رہی ہے یا مودی کی پالیسیاں اس کے برخلاف ہیں‘ وجہ کوئی بھی ہو اس وقت سارا دباؤ بھارتی وزیراعظم پر ہے کہ وہ کیسے اپنے ملک کو اس منجھدار سے باہر نکالتے ہیں اور جو وعدے انہوں نے 2014ء میں عوام سے خوبصورت ناموں والی مختلف انتخابی مہموں کے دوران کئے تھے انہیں وہ کب پورا کریں گے۔ انہیں اگر حکومت چلانی ہے تو ایک ہی چہرے کے ساتھ چلانی ہو گی۔ عوام سے کچھ اور کہیں اور اقتدار میں آ کر کچھ اور کریں اس طرح کی صورت حال زیادہ دیر تک اب چلتی دکھائی نہیں دیتی۔
دی اکانومسٹ کی دس صفحات کی رپورٹ جومجھے پندرہ سو روپے میں دستیاب ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کا خلاصہ یہ ہین کہ دو نہہں، ایک نظام کے نعرے کے بجائے دو نہیں،حکمران کا ایک ہی چہرہ ہونا چاہئے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو ملک میں انقلاب کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ اور حکمران کی بدنیتی اور منافقت کو ختم کر سکتا ہے۔(ختم شد)