خبرنامہ

پاکستان میں نئی منتخب حکومت اور امریکہ کا نیا دباؤ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پاکستان میں نئی منتخب حکومت اور امریکہ کا نیا دباؤ

ٰایک سانس میں امریکہ نے عمران خان کو الیکشن میں کامیابی پرمبارک باد دی اور دوسرے سانس میں پاکستان کے لئے امداد میں پانچ گنا کٹوتی کرتے ہوئے اسے پندرہ کروڑ کر دیا، ویسے یہ کوئی امداد نہیں بلکہ ان اخراجات کی ادائیگی ہے جن میں راہداری کااستعمال اور دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان پر مالی بوجھ میں حصہ ڈلنا مقصود ہوتا ہے۔
امریکہ نے اپنی جنگوں میں پاکستان کو بری طرح استعمال کیا اور پاکستان کی معیشت کو بری طرح پامال کیا مگر پاکستان کو مالی سہارا دینے میں اس نے ہمیشہ کنجوسی سے کام لیااور جب کام نکل گیا تو پاکستان کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں، طوطا چشمی کا محاورہ شاید امریکی رویئے کے پیش نظر ایجاد کیا گیا تھا۔
امریکہ کو اچھی طرح علم ہے کہ پاکستان کی معیشت کا اس وقت کچومر نکل چکا ہے۔ قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا ہے۔ملک کی بر آمدات گھٹتی چلی جا رہی ہیں، خزانہ معمول کے قرضوں کی اقساط اداکرنے کے قابل نہیں، زر مبادلہ ریزرو کی سطح مایوس کن حد تک کم ہو چکی ہے۔اور اگلی حکومت بیل آؤٹ پیکیج کی منصوبہ بندی کرنے پر مجبور ہے۔امریکہ نے نئی حکومت کی مدد کرنے کے بجائے الٹا اسے دباؤ کا شکار کر دیا ہے اور جو امداد ستر کروڑ سے ایک ارب ڈالر تک دیا کرتا تھا، اسے گھٹا کر صرف پندرہ کروڑ ڈالر کر دیا ہے۔ اس پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ شرط لگا دی ہے کہ اگر کوئی عالمی مالیاتی ادارہ پاکستان کی مدد بھی کرے تو پاکستان اس امداد میں سے چین کے قرضے واپس نہیں کر سکے گا۔ویسے چین کے قرضے اس قدر طویل مدت کے ہیں کہ اگلی تین حکومتوں پر ان کاکوئی بوجھ نہیں ہو گا۔
پاکستانی قوم ا س دن کو یاد کر کے سر پیٹ رہی ہے جب ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے کسی سے مشورہ کئے بغیر آدھی رات کو ایک ادنی سطح کے امریکی اہلکار کے فون پر وارآن ٹیرر میں امریکی حلیف بننے پر ہاں کر دی تھی۔ پاکستان کو ا س ہاں کی بہت ہی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ اس ہاں سے قبل پاکستان میں مکمل امن و سکون تھا، کہیں دہشت گردی کا سایہ تک نہ تھا۔مگر پھر ایسا عذاب نازل ہوا کہ آئے روز بے گناہ پاکستانیوں کی لاشیں گرنے لگیں۔ کوئی جگہ محفوظ نہ رہی، نہ جی ایچ کیو، نہ آئی ایس آئی کے دفاتر، نہ فوجی تنصیبات، نہ مزار، نہ بازار، نہ جلسے، نہ جلوس اور نہ جنازے، نہ سکول، نہ مسجدیں،نہ امام بارگاہیں اور نہ چرچ، ہر جگہ دہشت گرددندنا رہے تھے۔
ایک طرف یہ تباہی اور بربادی اور دوسری طرف پاکستان سے امریکہ کامسلسل اصرار کہ ڈو مور۔ڈو مور۔ پاکستان کی مسلح افواج نے قربانیاں دیں اور دہشت گردوں کا نام و نشان مٹا دیا مگر امریکہ کسی طور مطمئن نہیں۔وہ پاکستان کو دباؤ کا شکار رکھ کر اسے بھارت کے مقابلے میں کمزور کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت بھی جب امریکی کانگرس نے پاکستان کی امداد میں کمی کر دی ہے تو ساتھ ہی بھارت پر نوازشات کی بارش برسا دی ہے۔بھارت ا س خطے میں امریکہ کے لاڈلے کا کردار اد اکر رہا ہے، دونوں کا ہدف یہ ہے کہ کسی طور چین کا سی پیک کامنصوبہ پروان نہ چڑھنے پائے۔ پچھلے دنوں سی پیک کے روٹ پر گلگت بلتستان میں انتہا پسندوں نے درجنوں کے قریب سکول نذرٓتش کر دیئے اورا نہیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔ یہ ایک کھلی وارننگ ہے کہ پاکستان سی پیک کے منصوبے سے ہاتھ اٹھا لے۔ پاکستان کے چیف جسٹس نے ملک میں پانی کی کمی دور کرنے کے لئے مہمند ڈیم اور دیامیر بھاشا ڈیم کے لئے فنڈ کھولا ہے تو چیف جسٹس کے بقول اسے سبو تاژ کرنے کے لئے سکولوں پر حملے کئے گئے ہیں۔امریکہ بھی بیان دے چکا ہے کہ دیا میر بھاشا ڈیم کا علاقہ متنازع ہے، اس لئے عالمی مالیاتی ادارے اس کی فنڈنگ نہ کریں اور یہی ہوا کہ کوئی ادارہ اپنی پہلے سے منظور شدہ امداد بھی ریلیز کرنے کے لئے تیار نہیں۔ امریکہ کو کشمیر کے متنازعہ علاقے میں پاکستانی ڈیم تو نظر آ گیا ہے مگر بھارت جس طرح جہلم اور چناب پر سینکڑوں ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کر چکاہے۔ اس سے امریکہ نے چشم پوشی کر رکھی ہے۔بھارت صاف کہتا ہے کہ پاکستان پانی کی بوند بوند کے لئے ترسے گا۔ پاکستان کے لئے امریکہ دہرے معیار پر عمل کر رہا ہے، بھارت کو کھل کھیلنے کی اجازت اور پاکستان کو زنجیریں پہنائی جا رہی ہیں۔
آج امریکہ پاکستان کے ساتھ وہی کچھ کر رہا ہے جو اس نے سوویت روس کے خلاف جہاد کی کامیابی کے بعد کیا تھا۔ جہاد کے دوران پاکستان پر ڈالروں کی موسلا دھار بار ش ہو رہی تھی اور سوویت روس تہس نہس اور تتر بتر ہو گیا تو امریکہ نے پریسلر ترمیم کا ہتھیار استعمال کیا اور پاکستان کے ایٹمی پرگرام کی آڑ میں ساری امداد روک لی۔اس جہاد کے دونوں سپاہ سالاروں جنرل ضیا الحق اور جنرل اخترعبدالرحمن کو ایک طیارے کے حادثے میں شہید کرا دیا گیا۔ اس سانحے کے ذمے داروں کا آ ج تک کوئی سراغ نہیں لگ سکا حالانکہ اس میں ایک امریکی سفیر بھی بھسم ہو گیا تھا۔ امریکہ تو اپنے کسی عام شہر ی کی موت پر قیامت کھڑی کر دیتا ہے مگر اس سانحے پر اس نے مگر مچھ کے آنسو بھی نہیں بہائے۔
اصل میں امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو ایٹمی پروگرام میں پیش رفت کی سزا دینے کی کوشش کی ہے۔ امریکی منافقت کی انتہا یہ ہے کہ اس نے اسرائیل کو ایٹمی پروگرام پر کوئی زبانی لعن طعن بھی نہیں کی۔ شمالی کوریا کے ساتھ کچھ عرصے تک لفظوں کی چاند ماری کے بعد اس کے ساتھ بھی جپھی ڈال لی۔ بھارت بھی ایٹمی طاقت بن چکا ہے مگر اس سے امریکہ نے کوئی تعرض نہیں کیا، صرف پاکستان ہی اسے کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور کسی نہ کسی بہانے وہ ہمارا بازو مروڑنے کی کوشش جاری رکھتا ہے۔
پاکستانی قوم کو نئی حکومت سے بہت سی توقعات ہیں،عمران خان نے پاکستان کے اقتدارا علیٰ پر کوئی سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا ہے، اس نے وکٹری تقریر میں کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ایسے تعلقات ہوں گے کہ دونوں کو اس کا فائدہ ہو۔ عمران خان غیر ملکی امداد اور قرضوں کا بھی مخالف ہے اور قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا درس دیتا ہے۔ اگر وہ اپنے اس عزم کی تکمیل میں کامیاب ہوجائے اور دنیا کے سامنے جھولی نہ پھیلائے اور کشکول توڑ دے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اپنے وسائل کے اندر رہ کر گزارہ نہ کر سکے۔ عمران خان کے لئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سب سے پہلا چیلنج اسے امریکہ کی طرف سے در پیش ہے۔عمران خان کو چاہئے کہ حکومت سنبھالنے کے بعد قوم کو اعتماد میں لے اور اسے خودداری کا بھولا ہوا سبق یاد دلائے۔یہی نجات کا رستہ ہے۔
امریکی امداد کے نئے پلان میں البتہ ایک شرط ختم کر دی گئی ہے۔ اب اسے حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کی امداد روکنے سے مشروط نہیں کیا گیا۔ یہ توو قت ہی بتائے گا کہ امریکہ حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کو کس حد تک برداشت کرتا ہے۔