خبرنامہ

پاکستان کی رگ رگ، لانگ مارچ کے نشانے پر

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پاکستان کی رگ رگ، لانگ مارچ کے نشانے پر
دھرنے کے پلان ون کی ناکامی پر اب پلان بی کا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں ہم ملک کی سڑکیں اور اہم راستے بند کریں گے۔یہ سیاست کی کون سی قسم ہے جس میں معیشت کا سہارا بننے کی بجائے اس کی شہ رگ کو کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور وہ بھی سوچی سمجھی سازش کے تحت۔ مولاناملک کے مفاد میں تو آج تک کچھ کر نہ سکے لیکن ملکی سلامتی کو داؤ پر لگانے میں وہ پیش پیش ہیں۔ کھلے عام دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ ہم کاروبار زندگی مفلوج کر دیں گے۔ یہ سیاسی دہشت گردی یا یا معاشی دہشت گردی لیکن کسی بھی ریاست میں قبول نہیں کی جا سکتی۔ مولانا دنیا کا کوئی ملک بتا دیں جہاں ایک گروہ اٹھ کر نظام زندگی کی راہ میں حائل ہو جائے اور اسے اس کی اجازت دی گئی ہو۔ حد تو یہ ہے کہ خود اپوزیشن پارٹیاں مولانا کے پلان بی پر دانتوں میں انگلیاں دبائے بیٹھی ہیں کیونکہ مولانا نے انہیں بھی اس پر اعتماد میں نہیں لیا۔دراصل مولانا کے عزائم اتنے خطرناک ہیں کہ کوئی بھی ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ آخری وقت میں وہ کس کو کب دغا دے جائیں،یہ خطرہ سبھی کو ان سے محسوس ہو رہا ہے۔ یقین جانئے پلان بی ملک کے خلاف ایک مہلک سازش ہے اور مولانا اس کا ایک مہرہ ہیں۔
یہ ملکی تاریخ کا واحد دھرنا تھا جس کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھنا پڑتا تھا کہ دھرنا چل رہا ہے یا ختم ہو گیا ہے۔ یہ واحد گمنام دھرنا تھا جس کے مقاصد اور جواز دھرنا دینے کے بعد ڈھونڈے گئے۔کبھی کہا گیا ہم دھرنا کشمیریوں کے لئے کر رہے ہیں‘ کبھی ناموس رسالت ؐ کا حوالہ دیا گیا اور کبھی حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کی بات کی گئی۔ مولانااچھی طرح جانتے ہیں کہ وزیراعظم کا استعفیٰ اور نئے انتخابات کی شرائط کسی طور قبول نہیں ہو سکتیں کیونکہ اگر ایک مرتبہ یہ روایت چل پڑی تو کوئی بھی دس بیس ہزار بندے لا کر حکومتیں گرا کر چلتا بنے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر مولانا بھی جانتے ہیں کہ یہ دو شرائط منظور نہیں ہو سکتیں تو پھر کس لئے انہوں نے اپنے بندوں کو اس سردموسم میں رُلنے اور ٹھٹھرنے پر مجبور کیا اور اب انہیں پلان بی کے نام پر خوار کرنے چلے ہیں۔وہ فیس سیونگ چاہتے ہیں کیونکہ ورکرز کو بھی مطمئن کرنا ہے اور اپنی رہی سہی سیاست بھی بچانی ہے۔ اسی دوران میں جب مولانا ملکی سلامتی میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے تو‘ وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور راہداری کا افتتاح کر کے نہ صرف سکھ کمیونٹی کے دل موہ لئے بلکہ اس عمل سے پوری دنیا کو یہ پیغام ملا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے اور انہیں حدود و قیود میں رہتے ہوئے زندگی گزارنے اور عبادات کی مکمل آزادی بھی حاصل ہے۔ عمران خان پاکستان کے امن کے سفیر کے طور پر ابھرے ہیں۔ خاص طور پر جس طرح انہوں نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کے بارے میں جو تقریر کی اس کے بعد سے بھارت دفاعی پوزیشن پر چلا گیا ہے۔ اس سے قبل بھارت پاکستان پر بڑھ بڑھ کر زبانی حملے کر رہا تھا‘ کنٹرول لائن پر بھی کشیدگی بڑھ رہی تھی لیکن عمران خان کے حقائق پر مبنی مدلل خطاب کے بعد صورت حال میں واضح تبدیلی دیکھنے کو ملی۔
مولانا کا دھرنا محض ان کا ناکام پاور شو تھا۔ اب وہ بلا مقصداسے پلان بی کے نام پر شیطان کی آنت کی طرح طویل کرنے پر تُلے ہیں۔ شاید ان کا خیال ہے کہ اتنا پیسہ خرچ کر کے آئے ہیں چلو کہانی میں کچھ ایکشن اور سسپنس بھی بڑھا دیں تاکہ فیس سیونگ بھی ہو جائے اور آنے کا مقصد بھی حاصل ہو جائے۔ جہاں تک پاور شو کی بات ہے تو مذہبی جماعتوں کے لئے اس طرح کے احتجاج کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ تاہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کے ان دھرنوں کا سیاسی دباؤ کس حد تک ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں زیادہ سے زیادہ اگر مذہبی جماعتوں کا کوئی گروپ سیاسی طور پر کامیاب ہوا تو ایم ایم اے کا تھا۔ جے یو آئی‘ جماعت اسلامی و دیگر جماعتوں کو خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع ملا لیکن ان کی مایوس کارکردگی کی بدولت انہیں خیبرپختونخوا کے لوگوں نے دوبارہ منتخب نہیں کیا۔ تحریک انصاف کی واحد حکومت ہے جسے خیبرپختونخوا میں دوبارہ منتخب کیا گیا۔ اب جے یو آئی جیسی جماعت کو ایک صوبے میں بھی لوگ دوبارہ حکومت دینے کے حق میں نہیں ہیں حتیٰ کہ حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ مولانا اپنی سیٹ تک بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ایک ایسا شخص جو کسی جماعت کا امیر ہوتے ہوئے بھی انتخاب ہار جائے وہ کیسے بائیس کروڑ عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے کسی وزیراعظم کو مستعفی ہونے اور اسمبلیاں توڑنے کا کہہ سکتا ہے۔ جس بندے کو اس کے اپنے گھر اپنے علاقے اور حلقے والے بھی ووٹ دینے کو تیار نہیں،آج وہ کبھی پلان بی تو کبھی سی کے نام پر حکومت کو گھر بھیجنے پر بضد ہے۔
مولاناہر حکومت اور ہر حکمران کے لئے قابل قبول رہے کیونکہ ان کا اپنا کوئی نظریہ ہی نہیں تھا۔ ان کا نظریہ صرف اور صرف عہدہ‘ بیرونی دورے اور کرسی تھی۔ جو دے دیتا تھا اس کے ساتھ ہو جاتے اور اب چونکہ نہیں ملا تو بے چین نظر آتے ہیں۔فضل الرحمن نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی بطور خاتون وزیراعظم بننے کی بھرپور مخالفت کی۔ عورت کی آزادی کے خلاف تقاریر کیں اور یوں زبردست دباؤ پیدا کرنے کے بعد محترمہ کو بھی قائل کر لیا اور ان سے خوب سیاسی مراعات سمیٹیں۔مولانا نے اس کے بعد آنے والی ہر حکومت میں اپنی جگہ بنائی۔مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور یہاں تک کہ سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھی خوب سیاسی مفادات سمیٹے۔ اس دوران مولانا دس سال تک چیئرمین کشمیر کمیٹی رہے اس کمیٹی کا کام دنیا بھر میں کشمیر کاز کو اجاگر کرنا اور اس کے لئے حمایت حاصل کرنا تھا تاہم اس معاملے میں ان کی کارکردگی یہ ہے کہ بھارت نے کشمیر کو ہڑپ کر لیا۔
پلان بی میں بھی مولانا کو شکست کا سامنا ہو گا، سوال یہ ہے کہ مولانا کے پیچھے کونسا غیر ملکی ہاتھ ہے جو پاکستان کے حالات کو بگاڑنے کے لئے ان کو استعمال کر رہا ہے۔ مولانا جن جماعتوں کا ساتھ دیتے رہے وہ تیس پینتیس برس حکومت میں رہیں لیکن مولانا نے ایک دن تو کیا ایک گھنٹے کے لئے بھی ان کے خلاف احتجاج نہیں کیا۔ کیا ان کے دور میں یہ ملک امریکہ یا برطانیہ بن چکا تھا جو آج ایک سال میں تحریک انصاف نے خراب کر دیا؟ تب مولانا کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ وہ کشمیر کے لئے دھرنا دیں یا معیشت کی بہتری کی آواز اٹھائیں۔ درحقیقت مولانا کو نہ تو عوام کے مسائل سے کچھ لینا دینا ہے نہ ہی ملکی معیشت سے۔ وہ مذہبی کارڈ کو استعمال کر کے اس ملک کو اپنے ذاتی مقاصد اور فوائد کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔
ان کے دھرنے کا تو دھڑن تختہ ہو ہی چکا ہے اب پلان بی سے بھی ہوا نکل جائے گی۔