خبرنامہ

پاکستان کی نئی حکومت پر کشمیریوں کے خون کے چھینٹے

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پاکستان کی نئی حکومت پر کشمیریوں کے خون کے چھینٹے

یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ ادھر بھارتی ویر اعظم نے عمران خان کو مبارکباد ی کافون کیاا ور باہمی تعلقات کی خرابیوں کو دور کرنے کا عندیہ دیا، دوسری طرف عمران خان نے اپنی وکٹری تقریر میں کشمیر کو کورا یشو قرار دیا اور توقع ظاہر کی کہ دونوں ملک کشمیر کے دیرینہ مسئلے کوحل کر کے اپنے عوام کی غربت دور کرنے پرو سائل خرچ کریں اور باہمی تجارت کو فروغ دیں مگر ساتھ ہی کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم وستم میں اضافہ ہو گیا۔ پاکستان میں الیکشن کے بعد سے اب تک ہفتے دس دنوں کے اندر کشمیر میں بارہ بے گناہوں کو شہید کیا جاچکا ہے، ان کا قصور یہ تھا کہ وہ بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ یہ احتجاج ان کا سیاسی اور بنیادی حق تھاا ور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت حل ہوناہے نہ کہ بھارت سرکار کی یک طرفہ آئینی ترامیم کے ذریعے کہ وہ کشمیر کو بزور طاقت ہتھیا لے ا ورا سے اٹوٹ انگ کہنے کے بجائے باقاعدہ آئینی طور پر اٹوٹ انگ بنا لے۔ بھارت کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت اور اسکے اقتدار اعلی کی نوعیت کو تبدیل کر سکے۔ ا س لئے کہ کشمیر کو ایک اکثریتی مسلم ملحقہ ریاست کے طور پر پاکستان کا حصہ بننا تھا مگر بھارت نے آزادی کے فوری بعدہی سری نگر میں فوجیں اتار کر اس پر غاصبانہ قبضہ جما لیا۔ اس قبضے کو چھڑانے کے لئے پاکستان کے قبائلی لشکر نے تیز رفتار پیش قدمی کی اور جیسے ہی ا س کے ہراول دستے سری نگر ایئر پورٹ پر پہنچے تو بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو بھاگم بھاگ سلا متی کونسل جا پہنچا جہاں سیز فائر کی قرارداد منظور ہوئی اور بھارت اور پاکستان سے کہا گیا کہ وہ آزادانہ غیر جانبدارانہ استصواب کے ذریعے کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کریں بھارت نے اس قراراداد کو زبانی کلامی تومنظور کر لیا مگر اس پر اگلے ستر برس تک عمل نہیں کیا بلکہ الٹا جب بھی کشمیریوں نے ا ٓزادی کی جدو جہد شروع کی تو اسے طاقت سے دبانے کے لئے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی قابض افوج میں اضافہ شروع کر دیا، حتی کہ آج وادی کشمیر میں اس کی تعداد آٹھ لاکھ تک جا پہنچی ہے جو پاکستان کی کل فوج سے دو لاکھ زیادہ ہے۔ پاکستان کو پوری مشرقی سرحد کی بھی نگہبانی کرنی ہے، ورکنگ باؤنڈری اور کنٹرول لائن کا بھی دھیان کرناہے اور اب پچھلے بارہ برسوں سے مغربی سرحد کو بھی محفوظ بنانا ہے جہاں سے دنیا بھر کے دہشت گرد پاکستان پر یلغار کر رہے ہیں اور ان میں بڑی تعداد بھارتی دہشت گردوں کی ہے، جنہوں نے فاٹا اور بلوچستان میں قیامت برپاکر رکھی ہے، ایک بھارتی را کا ایجنٹ کل بھوشن یادیو رنگے ہاتھوں بلوچستان کی سرحد پار کرتے پکڑا بھی گیا، اس کے پاس ایک جعلی پاسپورٹ تھا اور وہ ایرانی بندر گاہ چاہ بہار میں بیٹھ کر ایک عرصے سے دہشت گردی کا نیٹ ورک کنٹرول کر رہا تھا۔ اس صورت حال میں بھارت کو کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔
بھارت سرکار کی طرف سے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعہ 35-Aختم کرنے کی کوششوں کیخلاف 6اگست کو مکمل ہڑتال کی گئی اور پورے کشمیر میں احتجاجی مظاہرے گئے۔ اس سلسلہ میں کشمیر میں احتجاجی مہم عوامی سطح پر زبردست عروج پر ہے اور حریت کانفرنس سمیت تمام کشمیری جماعتوں، وکلاء، تاجروں، طلباء، سول سوسائٹی اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی جانب سے اس احتجاجی تحریک کی حمایت کی گئی۔ بھارت میں برسراقتدار آنے والی مختلف حکومتوں نے ماضی میں دفعہ35-Aختم کرنے کیلئے بہت کوششیں کیں لیکن پوری کشمیری قوم نے اس معاملہ میں اتحادویکجہتی کا مظاہرہ کیا اور عوامی سطح پر شدید مزاحمت دیکھ کر بھارتی حکمرانوں کو ہمیشہ دفاعی رویہ اختیار کرنا پڑا جس پر یہ سازشیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ اب ایک مرتبہ پھر جب بی جے پی سرکار نے کشمیر میں گورنر راج نافذ کر دیا ہے اور ریاستی دہشت گردی کے دوران کشمیریوں کی قتل و غارت گری جاری ہے‘ ہندوانتہاپسند تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ ایک تھنک ٹینک نے بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں دفعہ 35-Aختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جب سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بی جے پی سے اتحاد کر کے ریاست میں حکومت بنائی تو دونوں کے مابین معاہدہ طے پایا تھا کہ بی جے پی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعہ 370کے تحت کشمیر کو دیے گئے اختیارات کو موضوع نہیں بنائے گی لہٰذا گزشتہ تین برسوں میں بی جے پی نے مذکورہ دفعہ ختم کرنے کی بات تو نہیں کی لیکن دفعہ 35-Aختم کرنے کیلئے چور دروازے سے آر ایس ایس کے تھنک ٹینک سے رٹ پٹیشن دائر کروادی گئی ہے اور اسی بنیاد پر حریت کانفرنس کے مرکزی قائدین، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، تاجروں اورطلباء کی جانب سے پانچ اور چھ اگست کو ہڑتال کی کال دی گئی تھی۔ قانونی طور پر یہ دفعہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کیلئے یہاں جائیداد خریدنے، ووٹ ڈالنے اور نوکری حاصل کرنے پر پابندی ہے لہٰذا اگر یہ دفعہ ختم ہو تی ہے تو اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوں گے۔بھارت سرکارباآسانی کشمیر میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے ریٹائرڈفوجیوں اور غیر کشمیریوں کو جنت ارضی کشمیر میں بسا سکے گا۔ فوجی کالونیاں بنانے سے متعلق اس کا دیرینہ خواب پورا ہو گا اور انڈیا کیلئے کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا قطعی طور پر مشکل نہیں رہے گا۔ یہ وہ خوفناک سازش ہے جس پر عمل درآمد کیلئے بھارت کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کے بعدسے عمل درآمدکی کوششیں کر رہا ہے۔
بھارت میں مودی سرکار کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت والی جس دفعہ کو ختم کرنے کیلئے پوری ریاستی مشینری استعمال کی جارہی ہے اور اب عدلیہ کو استعمال کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے اس طرح کی مختلف شقیں ناگالینڈ، میزورام، اروناچل پردیش، سکم، آسام، منی پور، گوا اور آندھرا پردیش سمیت دیگر ریاستوں میں بھی نافذ ہیں جس کے ذریعہ مذکورہ ریاستوں کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔ وہاں بھی ریاستی قوانین کے مطابق دوسری ریاستوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے جائیداد خریدنے پر پابندی عائد ہے یا اس کیلئے خاص طور پر اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا ہے لیکن کشمیر میں مسئلہ چونکہ مسلمانوں کا ہے اور بھارت سرکار اپنے غاصبانہ قبضہ کو طول دینے، کشمیر کی مسلم حیثیت وشناخت ختم کرنے اور وہاں مسلمانوں کے مقابلہ میں ہندوؤں کی آبادی کا تناسب بڑھانا چاہتا ہے اس لئے بھارت کو دیگر ریاستوں میں نافذ اس قسم کے قوانین نظر نہیں آتے اور آئے دن مقبوضہ کشمیر میں اس ایشو کو چھیڑ کر فساد برپا کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اس مرتبہ بی جے پی سرکار نے نیا حربہ اختیا رکیا ہے۔ وہ بظاہر خود سامنے نہیں آرہی اور آر ایس ایس کے تھنک ٹینک سے رٹ پٹیشن دائر کرواکر اسے فرنٹ لائن پر رکھا گیا ہے تاکہ اگر انہیں بھارتی سپریم کورٹ سے بی جے پی سرکار کی پسند اور مرضی کے مطابق فیصلہ کروانے میں کامیابی ہوتی ہے تو وہ دنیا میں اس امر کا ڈھنڈورا پیٹ سکتے ہیں کہ یہ فیصلہ تو ہندوستانی سپریم کورٹ نے کیا ہے اس لئے وہ عدالت کے اس فیصلہ پر عمل درآمد کی پابند ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ وہ لاکھوں ہندوستانی فوجی جو کشمیر میں ڈیوٹی کرتے رہے ہیں ان کیلئے سری نگر سمیت دیگر علاقوں میں کالونیاں بنا کر آباد کر دیا جائے تاکہ ایک تو مسلمانوں کے مقابلہ میں ہندوؤں کی آبادی زیادہ ہو اور دوسرا جب لاکھوں فوجی مزید یہاں آباد ہو جائیں گے تو عوامی سطح پر تحریک آزادی کوکچلنا آسان ہو جائے گا۔ اس سوچ اور فکر کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سارا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ بھارتی میڈیا کی جانب سے ان دنوں یہ پروپیگنڈا بہت زیادہ کیا جارہا ہے کہ کشمیر کی ترقی میں دفعہ 35-Aبہت بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ بھارت کے دیگر علاقوں سے لوگ یہاں آکر آباد نہیں ہو سکتے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں ہوتی اور ترقی کا عمل رکا ہوا ہے لیکن یہ سارا پروپیگنڈہ جھوٹ اور دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ جس طرح مقبوضہ جموں میں ہندوؤں کو بہت بڑی تعداد میں لاکر بسایا گیا،وہی کھیل اب وادی کشمیر میں بھی کھیلنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ بی جے پی کے حالیہ دور حکومت میں یہ سلسلہ اس لئے بھی تیز ہو گیا ہے کہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم کرنااور اس خطہ میں مسلمانوں کی بجائے ہندوؤں کی آبادی بڑھانا ہندوانتہاپسند تنظیموں کا دیرینہ خواب رہا ہے۔ اسی لئے سبھی انتہاپسند دفعہ 35-Aختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب پورے کشمیر میں ایک ہیجان برپاہے۔
رواں ماہ پاکستان میں عمران خان کی قیاد ت میں نئی حکومت قائم ہو رہی ہے۔ کشمیری قوم کی ان سے بہت توقعات وابستہ ہیں۔ حریت کانفرنس سمیت دیگر جماعتوں کی طرح کشمیر کی سکھ برادری نے بھی عمران خان کے کشمیر سے متعلق بیانئے کی تائید کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا اور مبارکباد دی ہے۔ کشمیرکی سکھ کمیونٹی نے دفعہ 35-Aسے بھی چھیڑ چھاڑ مسترد کرتے ہوئے بھرپور احتجاج کا اعلان کیا، لہٰذا عمران خان کو چاہیے کہ سابق حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کشمیریوں کے جس اعتماد کوسخت ٹھیس پہنچی تھی،وہ اسے بحال کریں‘ ان کی جدوجہد آزادی کا کھل کر ساتھ دیں اور مقبوضہ کشمیر میں دفعہ 35-Aختم کرنے کی کوششوں کیخلاف بین الاقوامی سطح پر بھرپور آواز بلند کریں تاکہ تحریک آزادی کشمیر کو سبوتاژ کرنے اور کشمیریوں کو غلام بنا کر رکھنے کی سازشیں ناکام بنائی جاسکیں۔ یہ عمران کا اولین امتحان ہے۔