خبرنامہ

پاک بھارت اقدامات۔ اتفاقات ہیں زمانے کے…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پاک بھارت اقدامات۔ اتفاقات ہیں زمانے کے…اسد اللہ غالب

ایک قصہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ ایک مرتبہ عاصمہ جہانگیر نے اعلی ججوں کے فیصلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یوں لگتا ہے کہ ایک بنچ میں شامل تما م جج ایک دوسرے کی جڑواں بہنیں ہیں۔جو ایک سوچتی ہے، وہی دوسری سوچتی ہے اور ان سب کا فیصلہ اتفاق رائے سے ہوتا ہے۔ کچھ یہی معاملہ پاک بھارت صورت حال کا ہے اور یہ سمجھنا مشکل ہے کہ دونوں ملکوں کے ایجنڈے میں مشترکات کیوں ہیں۔ کیا پاکستان ا ور بھارت بھی دو بہنیں ہیں کہ ایک ساتھ اور ایک جیسا سوچتی ہیں اور ایک جیسا ہی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر مودی نے نعرہ لگایا کہ نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا کچھ یہی کام پاکستان کی نئی حکومت کرر ہی ہے۔ بھارت میں بھی کرپشن کے الزامت میں اپوزیشن کو گرفتار کیا جارہا ہے اور پاکستان کی جیلین بھی ایسے ہی ملزموں سے بھر گئی ہیں، کرپشن کا مسئلہ ہر ملک کو در پیش ہے۔ کہیں ڈھیل مل جاتی ہے اور کہیں نہیں ملتی مگر یہ اتفاق ہے کہ پاکستان ا ور بھارت میں اپوزیشن کو کرپشن پر کوئی ڈھیل نہیں ملتی نہ کسی ڈیل کاامکان نظر آتا ہے۔ بھارت میں سابق وزیر خزانہ چدم برم کو گزشتہ روز گرفتار کیا گیاا ور رات کے وقت ان کے گھر کی دیواریں پھلاند کر پولیس نے انہیں گرفتار کیا حالانکہ وہ کئی ہفتوں سے تفتیش میں شامل ہو رہے تھے۔ پاکستان کے اصل وزیر خزانہ اسحاق ڈار تو لندن میں ہیں مگر ان کے جانشین مفتاح اسماعیل کو دھر لیا گیا ہے۔ زرداری اندر ہیں،ان کی بہن اندر ہے، نواز شریف اندر ہیں،ان کی بیٹی اندر ہے۔ حمزہ شہباز اندر ہے اور تو اور سابق وازیر اعظم خاقان عباسی بھی اندر ہیں اور باہرآنے کو تیار بھی نہیں،سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق اندر ہیں۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر ہیں۔ اور بھی کئی لوگ اندر ہوں گے۔ بھارت میں راہول کے اندر جانے کی باری آ رہی ہے اور پھر کانگرس کے بڑے اورنیتا بھی جیل کی ہوا کھائیں گے۔اس لحاظ سے بھارت ذرا بھی پاکستان سے پیچھے نہیں رہے گا۔
پاکستان بھارت میں ایک اتفاق کی بات یہ ہے کہ دونں ملکوں میں سیلاب کی کیفیت ہے اور دونوں ملک ایک دوسرے سے لڑنے مرنے کے لئے بھی تیار ہیں مگر میرا خیال ہے۔کہ دونوں ملکوں کو دو تین ماہ سیلاب سے نمٹنے کاا نتظار کرنا ہو گا۔ فوری جنگ کی پوزیشن میں کوئی بھی نہیں۔لیکن یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ فوری جنگ نہیں ہو گی کیونکہ آج کل جنگ تو فضائیہ اور میزائلوں کی مدد سے لڑی جاتی ہے۔ سیلاب ان کے راستے میں حائل نہیں۔
ایک بات میں ڈرتے ڈرتے کہوں گا کہ ادھر پاکستان نے قبائلی علاقے اپنی مملکت میں ضم کئے اور اس کے دوارکان قومی اسمبلی کو بھی اندر کیا تو بھارت نے سوچا کہ وہ کیوں پیچھے رہے۔، اس نے بھی مقبوضہ کشمیر کو اپنی ریاست میں ضم کر لیا اور کشمیر کے حریت پسند لیڈر تو برسوں سے جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں مگر اب کشمیر کے تین وزرائے اعلی محبوبہ مفتی، عمر عبدللہ اور فاروق عبدللہ کو بھی اند ر کر دیا۔ کشمیر کے غلام نبی آزاد نے دلی سے سری نگر آنے کی کوشش کی تو اسے واپس دلی بھجوا دیا گیا۔کشمیر پر بھارتی میڈیا کو بھی اندر کے حالات کی کچھ خبر نہیں، پاکستانی میڈیا بھی نہیں جانتا کہ کشمیریوں پر کیا گز رہی ہے۔ کس حال میں یاران وطن۔ معلومات کا ایساقحط ہے کہ ذہن ماؤف ہو جاتا ہے اور وہ بھی ایک زمانے میں جب خلاؤں میں سٹیلائٹ سب کچھ دیکھ رہے ہیں، سوشل میڈیا پل پل کی خبر دے سکتا ہے اور دور کی کوڑی لا سکتا ہے مگریہ سوشل میڈیا بھی اندھا گونگا بہرہ ہو گیا ہے اور وہ بھی دونوں ملکوں میں۔
ایک اتفاق کی بات یہ کہ امریکی صدر ٹرمپ،کشمیر پر بار بار ثالثی کی پیش کش کر رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم کووائٹ ہاؤس میں بتایا کہ مودی نے انہیں کشمیر پر ثالثی کے لئے کہا ہے۔ ہم پھولے نہ سمائے کہ دنیا کی واحدسپرپاور ثالثی کر اے گی تو مسئلہ ترنت حل ہو جائے گا ۔ اب پھر ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم سے بات کی، دونوں عظیم لیڈر ہیں دونوں ان کے دوست ہیں مگر ایک دوسرے کے دوست نہیں،یہ کیا اتفاق ہے کہ دو دشمن ایک شخص کے دوست ہیں اور ثالثی کے لئے ا سکی طرف دیکھ رہے ہیں مگر ساتھ ہی بھارت کہہ دیتا ہے کہ اسے ثالثی کی کوئی ضرورت نہیں، مقبوضہ کشمیر تو اس کا داخلی مسئلہ ہے۔ اب ثالثی کرنی ہے تو آزاد کشمیر پر کرا لیتے ہیں۔پاکستان اس پر مان جائے تو آزاد کشمیر سے بھی ہاتھ دوھو بیٹھے گا کیونکہ ثالثی کا یہی تو کمال ہوتا ہے کہ کمزور کی ایک نہ سنی جائے۔
دونوں ملکوں میں ایک اتفاق یہ ہے کہ مہنگائی مشترک مسئلہ ہے۔ بے روز گاری بھی مشترک مسئلہ ہے۔ دونوں ملکوں کی حکومتوں
نے دعوے بڑے بڑے کر رکھے ہیں مگر ڈیلور کچھ بھی نہیں کر پاتے، بھارت میں بھی پٹرول کے نرخ ہر ماہ بڑھتے ہیں، پاکستان میں بھی بڑھتے ہیں۔ ایک مشترک بات یہ ہے کہ سعودی عرب، امارات اور دیگر اسلامی ملک دونوں کے دوست ہیں۔ پاکستان کو بھی حصہ رسدی دیتے ہیں یعنی ہمیں دو ارب دے دیا مگر بھارت بڑا ملک ہے اس کی ضرویات زیادہیں اسے ستر ارب دے دیا۔ دونوں ملک ان دوستوں سے خوش ہیں۔
بھارت اور پاکستان دونوں معاشی بحران کا شکار ہیں اور دنیا کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں میں اپوزیشن کی پکڑ دھکڑ اور جنگی ماحول کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اپنے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹاناچاہتی ہیں۔ عوا م بھی بیوقوف بننے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی دونوں ملکوں میں انتہا پر ہے اور دونوں ملکوں کے عوام کشمیر کے مسئلے پر جذباتی ہیں۔
ایک زمانے میں ایوب خان نے سیاسی زوال کو دیکھ کر بھارت سے جنگ شروع کر دی۔ یحی خاں نے اسی عمل کو آگے بڑھایا، پینسٹھ کی جنگ میں تو پاکستان بڑے نقصان سے بچ گیا مگر اکہتر میں د و لخت ہو گیا۔ مگر اب پاکستانی عوام کو یہ حوصلہ ضرور ہے کہ خطے میں طاقت کا توازن درہم برہم نہیں، بھارت کی فوج تو زیادہ ہے مگر پاکستان کے پا س میزائل قوت کی برتری ہے جو بھارت کو ایک قدم آگے بڑھنے سے روک سکتے ہیں اور خدا نخواستہ ایٹمی جنگ ہوئی جس کا ویسے تو کوئی امکان نہیں کیو نکہ اس میں بھارت صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا، اس لئے بھارت اس جھگڑے کو اتنا بھی طول نہیں دے گا کہ ایٹمی تصادم کی نوبت آ جائے۔ اس نے کشمیر میں جو آئینی اقدام کرنا تھا، وہ کر لیا۔ اب اسے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو ٹھندا کرنا ہے اور اسے پتہ ہے پاکستان کشمیریوں کی مادی حمایت کے لئے تیار نہیں ہو گا، اخلاقی اور سفارتی اور زبانی جمع خرچ سے صرف کشمیریوں پر مظالم میں کمی تو آ سکتی ہے مگر جغرافیائی پوزیشن تبدیل ہونے کا کوئی امکان نہیں، نہ ہمیں ایسی توقع کرنی چاہئے۔ بھارت میں کانگرس کو اس امر پر اعتراض نہیں کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ رہے، بس اسے تین سو ستر کے خاتمے پر اعتراض ہے مگر پارلمینٹ میں بی جے پی کو عددی برتری حاصل ہے اس لئے کانگرس اس کے رستے میں حائل نہیں ہوسکتی۔نہ دنیااس موڈ میں ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت سے ا ٓزادکروا سکے یا استصواب کا اہمتام کرا سکے۔ اس پس منظر میں دونوں طرف سے بیانات کی دھول اڑائی جائے گی۔ اس سے زیادہ کسی کے بس میں کچھ نہیں، پاکستان زور بازو سے کشمیر نہیں لے سکتا۔ بھارت زور بازو سے پاکستان پر قابض نہیں ہو سکتا تو دونوں کو آنے والی جگہ پر رہنا پڑے گا