خبرنامہ

پنجاب گورنر ہاؤس میں چودھری سرور کی خوش گوار واپسی

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پنجاب گورنر ہاؤس میں چودھری سرور کی خوش گوار واپسی

وہی در و دیوار وہی وسعتیں،چودھری سرور کو خوش آمدید کہنے کے لئے بے تاب ہیں،مگر کچھ فرق واقع ہو گیا ہے۔ چودھری سرور کی وفاداریاں تبدیل ہو گئی ہیں۔ پہلے پہل انہوں نے یہاں قدم رنجہ فرمایا تھا تو وہ ن لیگ کے نامزد گورنر تھے۔ اب پی ٹی آئی کے۔ یہ زمین آسمان کا فرق ہے، ایک جماعت اسٹیٹس کو کا حصہ تھی۔ دوسری انقلاب کی بات کرتی ہے۔میں نے ہواؤں کی سرگوشیوں سے سنا تھا کہ چودھری سرور صوبائی سیٹ پر الیکشن لڑ کر تخت لاہور کے حاکم بننے کی خواہش رکھتے تھے، ہو سکتا ہے انہیں پارٹی کے اندر سے بھی مزاحمت پیش آئی ہو مگر میں نے بھی اس خیال کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ اس لئے کہ یہاں علیم خان ایک عرصے سے محنت کر رہے ہیں اور شاہ محمود قریشی بھی اس منصب پر نظر جمائے ہوئے ہیں۔ شنید ہے کہ ا س پر چودھری سرور مجھ سے خفا ہو گئے۔ سیاست دانوں اور اخبار نویسوں کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں ہوتا، اس لئے یہ باہمی ناراضگیاں بے معنی بات ہیں۔ جب وہ پاکستان ا ٓئے تھے تو لندن میں ہائی کمشنر بننا چاہتے تھے، مخالفت تو میں نے اس کی بھی کی تھی اور خود سرور نے مجھ سے کہا کہ آپ کی دلیل ٹھوس ہے اور درست ہے۔ اس لئے وہ ہائی کمشنری کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے۔ آج مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ا س ملک میں اصول پرستی ایک فضول حرکت ہے۔ کتنے ہی لوگ دہری شہریت کے ساتھ پاکستان کے منصب بھی سنبھالے ہوئے ہیں،کینیڈا کے سفیر بھی میرے دوست ہیں۔ وہ بھی دوہری شہریت رکھتے ہیں مگر میں نے ان کی مخالفت نہیں کی کیونکہ مجھے اپنی اجتہادی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔ یہاں تو ایک جج صاحب بھی دوہری شہریت رکھتے ہیں اور اب چیف جسٹس نے فوج سے کہا ہے کہ وہ دوہری شہریت کے بارے میں وضاحت کریں،اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں کہیں سے سن گن ملی ہو گی کہ یہاں بھی وہی سول والا حال ہے۔ ممکن ہے سن گن بے بنیاد ہو مگر فوج کو یہ حلف پیش کر دینا چاہئے۔مگر اس سے فرق کیا پڑے گا۔
میں اوور سیز پاکستانیوں کی تحیر خیز کامیابیوں کے قصے سناتا رہا ہوں، یہ اسی کے عشرے کی بات ہے، اس وقت ابھی چودھری سرور ممبر پارلیمنٹ نہیں بنے تھے لیکن ایک کامیاب بزنس مین ضرور تھے۔کاروبار میں کامیابیوں کے جھنڈے دیگر پاکستانیوں نے بھی گاڑے۔ پھر ہمارے لوگ بلدیاتی اداروں میں گئے اور اب تو لندن کامیئر بھی پاکستانی نژاد ہے۔ انگریزوں کو دوہری شہریت ہر اعتراض نہیں تو پھر ہمیں کیوں، یہ لوگ ہمارا اثاثہ ہیں۔ ہمار فخر ہیں،ہمارے لئے راہ نما ہیں۔ان کی خدمات میسرا ٓ جائیں تو ہمیں شکریئے کے ساتھ انہیں قبول کرنا چاہئے، انہیں سرآنکھوں پہ بٹھانا چاہئے، دیار غیر میں آگے بڑھنا چھوٹی بات نہیں۔یہ تو ایک انقلابی کارنامہ ہے۔ اور کچھ ہو یا نہ ہو یہ لوگ ہمیں قیمتی زر مبادلہ فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں، ان کے ساتھ ہم فراڈ پہ فرا ڈ کرتے ہیں پھر بھی یہ وطن کو لہلہاتا دیکھنا چاہتے ہیں، یہ تو فرشتہ صفت لوگ ہیں، مجھے بشیر مان کا یہاں ضرور تذکرہ کرناہے جس نے انگریز کی سیاست میں پہلی نقب لگائی۔ وہ ہماری کامیابیوں کا ہراول دستہ بنے۔ان کی کامیابی پر برطانوی اخباروں نے سیاہ حاشیوں سے خبر یں شائع کیں، انہیں یہ اقدام ہضم نہیں ہو پایا مگر برطانوی معاشرہ آخر تو جمہوری ہے۔ اسے ہمارے لوگوں کے وجود کو برداشت کرتے ہی بنی۔
چودھری سرور پاکستان سے باہر کسی ملک میں پہلا رکن پارلیمنٹ بنا۔ اس سے بھونچال برپا ہو گیا۔ اس کے خلاف سازشیں شروع ہو گئیں۔ یہی وہ وقت تھا جب میں نے اسے پاکستان میں بیٹھ کر اخلاقی سہارا دیا تھا، یہ میرا اس پر کوئی احسان نہ تھا، ایک فریضہ تھا جسے میں نے ادا کیا، پاکستان میں کسی کو چودھری سرور کے نام کا پتہ میرے کالموں سے چلا۔ میں نے یہ لڑائی اس وقت تک جاری رکھی جب تک سرور کو اپنی عدالتوں سے بری نہیں کر دیا گیا۔ وہ بار بار ممبر پارلیمنٹ بنا، پھر ا س کا بیٹا منتخب ہونے لگا۔ میں سرور اورا س جیسے سینکڑوں ہزاروں پاکستانیوں کا دلی طور پر قدر دان ہوں جنہوں نے دیار غیر کو چھوڑ کر وطن کی خدمت کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ لوگ تجربے کی دولت سے بھی مالامال تھے۔
پاکستان کی سیاست ابھی بلوغت کو نہیں پہنچ سکی۔ یہاں کے داؤ پیچ نرالے ہیں، سازشیں ہی سازشیں ہیں اور ہر قدم پر رکاوٹیں ہیں۔ سرور بھی اسی جال میں پھنسا اور سیاست کے بھنور میں لڑھکنیاں کھاتا رہا۔اس نے بہر حال حوصلہ نہیں ہارا۔ثابت قدم رہا، اسی لئے وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے سب سے بڑے آئینی منصب کے لئے نامزد ہو چکا ہے۔ لاہور کا گورنرہاؤس بازو کھول کر اسے خوش آمدید کہنے کے لئے تیار ہے مگر اس بار سرور کو احتیاط سے کام لینا ہو گا،کچھ زبان بندی اور کچھ کچھ خواہشات پر کنٹرول۔ گورنر کا منصب کوئی ایگزیکٹو اختیارات عطا نہیں کرتا مگر گورنر کو کان اورآنکھیں کھول کر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ واچ ڈاگ کا فریضہ ادا کرتا ہے۔ صوبے ا ور وفاق کے مابین ایک نازک اور حساس رشتے کوقائم رکھنا ا س کابنیادی فریضہ ہے، وہ ریفارمر نہیں بن سکتا۔ اصلاحات نافذ نہیں کر سکتا اسے جو کچھ کرنا ہے۔ خاموشی سے کرنا ہے۔ وہ وزیر اعلیٰ کے متوازی حکومت قائم کرنے کا ختیار نہیں رکھتا۔ میاں اظہر نے یہ کام کیا، وہ ناکام ہو گیا۔ چودھری سرور نے یہ کام کیا، انہیں یہ منصب ہی چھوڑنا پڑا۔ گورنر کالاباغ،گورنر جیلانی اور گورنر فضل حق جیسے اختیارات صر ف مارشل لا حکومت میں ہی مل سکتے ہیں۔ اپنی سیاسی پارٹی ایسے اختیارات دینے کوتیار نہیں ہوتی اور نہ ایسے اختیارات لینے کی کوشش کرنی چاہئے۔
چودھری سرور مرنجاں مرنج انسان ہیں۔ بابو نہیں، جاگیر دار نہیں، صنعتکار نہیں۔ پیسے و الے ہونے کے باجود ان میں پیسے والوں کی سی خو بو نہیں۔ ان کی گردن میں سریا نہیں، وہ عوام میں سے ہیں اور عوام سے رشتہ جوڑ کر رکھنے کے عادی ہیں،وہ گورنر ہاؤس کے دروازے کھولیں۔ بچوں کے لئے کھولیں۔ اہل علم کے لئے کھولیں،علمی، ادبی محفلیں سجائیں۔ کتابوں کی تقاریب رونمائی منعقد کریں، ان کے چاروں طرف دانشوروں کا ہالہ ہو گاا ور وہ اس کہکشاں میں خود بھی نور کا ہالہ ہوں گے۔نو رتن مقرر کئے بغیر انہیں نورتنوں کی مشاورت دستیاب ہو گی۔ وہ ا س مشاورت کا رس نچوڑ کر وفاقی حکومت کو پیش کریں اور وہ اس سے راہ نمائی حاصل کر کے صوبے کو چار چاند لگائے۔
چودھری سرور جس قدر فراخ دل ہوں گے، ان کو جواب میں اس سے بڑھ کر فراخ دلی ملے گی۔وہ عصبیت سے کام لیں گے۔ جواب میں انہیں تعصب ملے گا۔ جیسا بوئیں گے ویسا کاٹیں گے۔گندم بوئیں گے تو گندم اگے گی، کانٹے بکھیریں گے تو ان کو قدم قدم پر کانٹوں سے واسطہ پڑے گا۔ میں جس سرور کو جانتا ہوں وہ محبتیں عام کرنے والے انسان ہیں۔ پھول نچھاور کرنے والے انسان ہیں، ہنس مکھ ہیں۔ دل کھلا ہے اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ وہ پورے ملک میں اپنی پارٹی کے بہترین اور کامیاب سفیر ثابت ہوں گے۔