خبرنامہ

پہلے سو دن۔ سوکہانیوں کی دوسری کہانی

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پہلے سو دن۔ سوکہانیوں کی دوسری کہانی
ہر حکومت کو خزانہ خالی کیوں ملتا ہے۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔ قائد اعظم کی حکومت کو بھی خالی خزانہ ملا تھا اور سرکاری ملازموں کی تنخواہیں دینے کے لئے ایک دو صنعتکاروں سے ادھار پکڑنا پڑا تھا، قائد اعظم کو تو ایک سازش کے تحت خالی خزانہ دیا گیاتاکہ پاکستان چل نہ پائے اور بھارت کے پاؤں میں جا گرے مگر بعد میں کوئی ایسی نئی حکومت نہیں آئی جس نے یہ نہ کہا ہو کہ سابقہ حکومت اللے تللوں سے خزانہ خالی کر گئی ہے۔ جنرل ضیا کو افغان جنگ میں بوریاں بھر کے ڈالر ملے۔ اس نے موت سے کچھ ہی عرصہ قبل اتفاق ہسپتال کاافتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارکان ا سمبلی سر کاری گرانٹ سے اپنے کلے مضبوط بنائیں۔ اس کے بعد ارکان ا سمبلی کے لئے مخصوص فنڈ کو کلہ فنڈ کہا جانے لگا۔ جنرل ضیا ایک حادثے کا شکار ہو گیا۔ اس کا جہاز تو جل گیا مگر کیا خزانہ بھی ساتھ ہی جل گیا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ جنرل پرویزمشرف کو تو جہاز بھر بھر کے ڈالر ملے۔ اس نے اپنے زوال سے چند ماہ پیشتر لاہور قصور روڈ کا افتتاح کیا تواس نے کہا تھا کہ خزانہ بھرا ہوا ہے۔ ملک میں ترقیاتی اسکیموں کا جال بچھا دو۔ مگر ادھر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا غبارہ پھٹا۔، ادھر خزانہ اس قدر خالی تھا کہ ایک ماہ کے لئے وزیر خزانہ بننے والے اسحق ڈار نے قومی ا سمبلی کی تقریر میں کہا کہ خزانہ خالی ہے اور ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے۔ یہ کہہ کر اس نے حکومت چھوڑ دی کہ وہ اسے چلانے سے قاصر تھا۔
خزانہ اب بھی خالی ہے۔ کم از کم عمران خان کی حکومت نے یہی کہا مگرا س نے سابقہ حکومتوں کی طرح صرف خالی خزانے کی گردان ہی نہیں کی بلکہ عوام کو بتایا کہ خزانہ کس طرح خالی ہوا، کس نے عیش و عشرت کی۔ ایوان صدر اور پی ایم ہاؤس کے کھابوں پر کتنا خرچ اٹھتا تھا۔ دودھ پینے کے لئے لاکھوں کی بھینسیں رکھی ہوئی تھیں مگر ان کو پالنے کے لئے کروڑوں کا خرچہ اٹھ رہا تھا، سابق وزیر اعظم نے صرف لندن کے پھیرے لگانے کے لئے خزانے پر کس طرح ہاتھ صاف کیے، صوبوں کے گورنر ہاؤسوں اور وزرائے اعلیٰ کے گھروں پر ہونیو الے خرچے بھی خزانے کو ٹیکا لگاتے رہے۔ایسے ایسے منصوبے بنے جن کی ضرورت نہ تھی اورا گر کوئی ضرورت تھی تو مقصد صرف کمیشن خوری کا تھا اور منی لانڈرنگ کا تھا۔
عمران کی حکومت نے صرف خالی خزانے کا شور نہیں مچایا اور ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھ نہیں رہی بلکہ اس نے پہلے سو دنوں کی ترجیحات میں خزانے کی کمی پوری کرنے کی تدابیر بھی سوچیں اور یہ تدابیر بھی ایسی تھیں جو عمران خاں کی اعلانیہ سوچ سے بر عکس تھیں، عمران کہا کرتا تھا کہ وہ بیرونی قرضوں کی بھیک نہیں مانگے گا۔مگر الیکشن سے پہلے کے حقائق کچھ اور ہوتے ہیں اور الیکشن کے بعد حکومت سنبھالنے کے بعد چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں اور نئے تقاضوں کی خاطر پارٹی منشور اور سابقہ اعلانات دھرے رہ جاتے ہیں۔ عمران چاہتا تو ایک کینسر زدہ ملک کے سرہانے بیٹھ کر رو پیٹ کر پانچ سال پورے کر لیتا مگرا س نے تو نئے پاکستان کے بھی وعدے کئے تھے، ایک پاکستان کے وعدے کئے تھے اور غریب امیر کے درمیان مساوات قائم کرنے کے وعدے کئے تھے۔ اس کے نزدیک یہ وعدے مقدس تھے اور ان کا پاس ضروری تھا۔ چنانچہ اس نے خزانے کی حالت ٹھیک کرنے کی ٹھانی۔ پہلے بات چلی کہ آئی ایم ایف سے بات کر کے دیکھ لیا جائے مگرا س کی شرائط ایسی تھیں کہ عام آدمی کی چیخیں نکل جاتیں۔ پھر عمران کی سوچ میں نئی لہر پید اہوئی ا ورا س نے پاکستان کے دوست ممالک سے رابطوں کا فیصلہ کیا۔ سعودی عرب کے پہلے دورے میں کوئی نتیجہ نہ نکلا، مگر بات چیت چلتی رہی اور دوسرادورہ نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ سعودی عرب نے نقد ڈالر بھی دیئے اور بعد میں ادائیگی کی شرط پر تیل بھی ادھار دینے کا فیصلہ کیا۔ سعودی حکومت جب بھی پاکستان کی مدد کرتی ہے تو یہی راستہ اختیار کرتی ہے۔
پہلی کامیابی سے عمران حکومت کو حوصلہ ملا۔ اور ابو ظہبی اور پھر چین سے رابطے کئے گئے۔ چین تو جو کچھ کرتا ہے،خاموشی سے کرتا ہے مگر ابو ظہبی نے اسٹریٹجک پارٹنر بننے کی حامی بھر لی۔پاکستان کو ایسے ہی دوستوں کی ضرورت ہے جو یہاں آ کر سرمایہ کاری کریں،چین کے ساتھ سی پیک کا منصوبہ پہلے سے چل رہا ہے۔ ایسے منصوبے ریاستوں کے ساتھ ہوتے ہیں جنہیں عام طور پر ختم نہیں کیا جاتا۔ پھر بھی ملائیشیا ہی کے مہاتر محمد نے چین کے ساتھ ون بیلٹ ون روڈ کے سلسلے کا ریل کامنصوبہ ختم کر دیا ہے اور باقی منصوبوں پر نظر ثانی کا اعلان کیا ہے۔ملائیشیا نے یہ سب کچھ کرپشن کا سراغ لگانے کی وجہ سے کیا ہے۔ پاکستان کے ایک مشیر رزاق داؤد نے کہا تھا کہ وہ سی پیک پر نظر ثانی کا حق رکھتے ہیں۔ اس پر ایک شور اٹھا اور وزیر خزانہ اسد عمر کی وضاحت آگئی کہ سی پیک کو جوں کاتوں قبول کیا جائے گا تاہم چین نے اعلان کیا کہ پاکستان ان منصوبوں میں کوئی تبدیلی چاہتا ہے تو وہ اس پر بات کر نے کو تیار ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف کی حکومت نے سی پیک کے منصوبے کے خدو خال نہ کسی پارلیمنٹ میں پیش کئے۔ نہ عوام کے سامنے اس کی تفصیلات رکھیں۔ سب کچھ زبانی کلامی ہو رہا تھا یا ایساتاثر دیا گیا۔بہر حال نواز شریف کے زمانے میں ہی صوبوں کو اعتراضات ہوئے تھے جس کے بعد نواز شریف تمام وزرائے اعلیٰ کوساتھ لے کر دوبارہ مذاکرات کے لئے چین گئے اور چین نے ہر کسی کی مراد پوری کر دی۔ چین وہ ملک نہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے مقاصد کو قربان کر دے۔ وہ دوسرے فریق کی بات سننے کو ہر وقت تیار رہتا ہے اورا ٓج بھی پاکستان نے اپنے بہتر مفاد کے لئے چین کے سامنے کوئی تجویز رکھی تو چین اسے آسانی سے قبول کر لے گا۔ پاکستان کے لئے اصل ترجیح یہ ہے کہ شارٹ ٹرم میں اس کا ادائیگیوں کا توازن ٹھیک ہو جائے، وزیر خزانہ اسدعمر بتا چکے ہیں کہ دوستوں نے جو پیکیج دئیے ہیں،ان کے بعد یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ اب طویل مدتی منصوبہ بندی پر غور کر لینا چاہئے۔ مشرقی روٹ پر تو اتفاق ہو چکا۔ کیا مغربی روٹ کی بھی ضرورت ہے اور اگر ضرورت ہے تو چین کو اس پرا ٓمادہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے صنعتی زونز بنانے کا قصہ ہے۔ چین کی سرمایہ کاری ہو، سعودی سرمایہ کاری ہو یا ابو ظہبی کی سرمایہ کاری ہو، یہ صنعتی زون قائم ہونے چاہئیں۔ اسی سے پاکستان میں پیداوار بڑھے گی، روزگار بڑھے گاا ور بر آمدات بڑھیں گی اور کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ کم ہو گا۔
عمران حکومت نے پہلے سودنوں میں معاشی بحران پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔اب حکومت کے لب و لہجے پر وہ گھبراہٹ طاری نہیں ہے جوشروع میں دیکھنے میں آ رہی تھی۔ حکومت پہلے سے زیادہ باا عتماد ہے۔ عمران خان کی تقاریر بہتر سے بہتر ہو رہی ہیں،ان کی حکومت کی فنکشنگ معمول پر آ گئی ہے اور معاملات میں توازن پیدا ہو گیا ہے۔ معاشی ا ور مالیاتی اہداف میں کامیابی پہلے سو دنوں کا ایساکارنامہ ہے جسے مؤرخ کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔