خبرنامہ

کیااب شاہ سلمان کو خودآنا پڑے گا۔۔۔۔اسداللہ غالب

ماشااللہ! ہماری اکڑفوں دیکھنے کے لائق ہے۔مگر ہم ٹالبوٹ کی ایک دھمکی برداشت نہیں کر سکے تھے، اس امریکی اہل کار نے آدھی رات کو سوتے سے مشرف کو جگا کر پوچھا تھا کہ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمنوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
مشرف نے ایک فیصلہ کیا، چشم زدن میں کیا، مشرف کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا مگر مشرف چلے گئے اور اس بلے کے خون کے پیاسے زرداری نے ا س کے کئے گئے فیصلے پر سو فی صد عمل کیا، اور اب نواز شریف بھی ہو بہواسی پالیسی پر گامزن ۔امریکی دھمکی پر صرف پاکستان نے ہی نہیں، ساری دنیا نے فرمانبرداری کا ثبوت دیا تھا۔
سعودی عرب کا نام بھی اگر امریکہ ہوتا تو کیا اس کے شاہزادوں کو پاکستان کے پھیرے لگانے پڑتے۔ کیاوہ آدھی رات کو نواز شریف کو سوتے سے نہ جھنجھوڑتے اور یہ نہ پوچھتے کہ لکیر کے اس طرف کھڑے ہیں یا دوسری طرف۔
مگر سعودی عرب چونکہ امریکہ نہیں ہے اور ہم اسے محض زبانی کلامی سرزمین حرمین شریفین مانتے ہیں، اسلئے ہمارے نخرے دیکھنے والے ہیں۔ سعودی عرب کو ہماری یمن میں ضرورت پڑی تو ہم نے پارلیمنٹ کی آڑ لی۔ اسی پارلیمنٹ نے ڈرون حملوں اور سینکڑوں دیگر اشوز پر قراردادیں منظور کر رکھی ہیں مگر ہم نے کبھی پارلیمنٹ کو گھاس تک نہیں ڈالی۔وزیر اعظم نے کبھی اس پارلیمنٹ کے ایوان کا چہرہ تک نہیں دیکھا۔مگر سعودی عرب کومسئلہ درپیش ہوا تو اسی پارلیمنٹ کو تقدس کا درجہ حاصل ہو گیا،اس میں کی گئی تقریریں الہامی حیثیت اختیار کر گئیں، ہم نے سعودی عرب کی مدد تو کرنا نہیں تھی مگر سعودیہ کو صلواتیں سنانے کا موقع بھی ضائع نہیں کیا۔اسی وزیر اعظم کو بھارت سے جپھیاں پیپیاں کرنی ہو تو وہ جاتی امراء کے حصار اندر مودی کو بلا لیتے ہیں، کسی پارلیمنٹ سے پوچھتے تک نہیں۔نہ اپنی کچن کبینٹ سے صلاح مشورہ کرتے ہیں، نہ آرمی چیف سے مشاورت کی زحمت اٹھاتے ہیں۔
اگر یہی سعودی عرب ہماری طرف آنے کے بجائے نئی دہلی کا رخ کرتا اور جس طرح نائن الیون کے بعد بھارت نے امریکہ کو ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کر ادی تھی،اسی طرح بھارت آج بھی سعودی عرب کے لئے جان حاضر کر دے تو مجھے کوئی اندازہ نہیں کہ ہمارا رد عمل کیا ہو گا۔ کیا ہم یہ برداشت کر پائیں گے۔
پیپلز پارٹی کے لیڈر باتیں بہت بناتے ہیں، بڑھ بڑھ کر بناتے ہیں۔وہ بھٹو کی روح سے پوچھیں کہ ا سے شاہ فیصل کی ضرورت پڑی تھی تو کیا وہ کشاں کشاں اسلامک سمٹ میں نہیں چلا آیا تھا اور کیا ہمارے سرکاری ٹی وی نے اس عظیم فرمانروا کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو نہیں دکھائے تھے جو اس نے کشمیر کی غلامی کے ذکر پر لاہور کی بادشاہی مسجد کے صحن میں بہائے تھے۔
ہم کہتے ہیں کہ ہم غیر جانبدار ہیں مگر دہشت گردی کی جنگ میں ہم غیر جانبدار نہیں ہیں۔ہم امریکی احکامات کو بلا چون و چراں مانتے ہیں اور اب تو چین کے احکامات کی بھی پیروی کرتے ہیں، وہ کہتا ہے کہ اس کے سنکیانگ میں کوئی دہشت گرد شمالی وزیرستان سے نہ جائے ، ہم نے ان غیر ملکی دہشت گردوں کی خوب دھلائی کی ہے۔چین تو پھر ایک سپر طاقت ہے ، ہم تو بھارت کی گیدڑ بھبکیوں سے بھی خائف ہو کر کہتے ہیں کہ پاکستان کی سر زمین کو دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔مگر ہم بھارت کو نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنی سر زمین پر دہشت گردوں کی سرکاری سطح پر تربیت کر کے پاکستان میں داخل نہ کرے، ہم چین سے بھی نہیں کہہ سکتے کہ سنکیانگ کے لوگوں کو شمالی وزیرستان تک آنے سے روکتے کیوں نہیں۔ہم تو افغانستان کے سامنے گھگھیا رہے ہیں، اشرف غنی کی دھمکیوں پر ہم سو سو وضاحتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
سعودی عرب سوچتا تو ہوگا کہ اس نے پاکستان پر جو احسانات کئے، اس کے لیڈروں کے چونچلے برداشت کئے اور اس کے مولویوں کو کھلا کھلا کر کپا بنا دیا تو اس نے کیا ثواب کمایا۔ کوئی اس کے حق میں آواز بلند کرنے والا نہیں، وہ تو بالکل سے نہیں بولتے جو پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے ہیں اور جو پارلیمنٹ سے باہر ہیں ، ان طوطیوں کی نقار خانے میں سنتا کوئی نہیں۔
اور یہ بھی سعودی عرب کا حوصلہ ہے کہ اسے اچھی طرح علم ہے کہ پاکستان سے خیر کی توقع نہیں مگر وہ پھر بھی بھاگم بھاگ اسلام آباد ہی آ رہا ہے۔ اور یہاں یہ سماں ہے کہ ہم ہیں مشتاق اور وہ ہے بیزار، یا الہی یہ ماجرا کیا ہے۔
اس وقت سعودی وزیر دفاع اور نائب ولی عہد پاکستان میں موجود ہیں۔ وہ اپنے ملک میں اپنے والد کے بعد طاقتور تریں شخصیت ہیں۔انہوں نے یمن کی جنگ لڑنے کے لئے چودہ رکنی اتحاد بنایا اور اب ایک وسیع تراتحاد کا اعلان کر دیا ہے، پہلا اتحاد بنا تو سعودی ترجمان کے عقب میں پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ ہم نے اعتراض کیا کہ جب ہم اس اتحاد میں شامل ہی نہیں تو ہمارا جھنڈا کیوں استعمال کیا گیا، اب نئے اتحاد میں اعلان کے مطابق تو پاکستان شامل ہے اور پاکستان کی حالت یہ ہے کہ نہ یہ اتحاد نگلا جا رہا ہے، نہ اگلا جا رہا ہے۔پاکستان میں جو بولتا ہے وہ اتحاد میں شمولیت کی مخالفت کرتا ہے،اورثالثی کروانے کی پیش کرتا ہے جبکہ کسی نے اس چودھری ملک کو ثالث بننے کی دعوت دی نہیں ۔اور زمینی صورت حال یہ ہے کہ ہماری بات پر کوئی کان دھرنے کے لئے تیار ہی نہیں مگر ہم سعودی عرب و عجم کے حکمرانوں کو اپنے گھٹنوں میں بٹھانے کے خواب دیکھتے ہیں۔
وہ جو اکڑتے پھرتے ہیں، میں ان سے سے نہیں کہتا کہ کہ وہ اکڑ فوں نہ دکھائیں لیکن ان سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ امریکہ کے سامنے بھی اکڑفوں دکھا سکیں، چین کے سامنے بھی سینہ تان کر دکھائیں، چلیئے یہ بڑی بات ہے اور ان کی حیثیت سے باہر ہے اور نا قابل عمل ہے تو پھر بھارت یا افغانستان کے سامنے ہی اکڑ فوں دکھائیں تو میں انہیں سورما مانوں، ان کی غیر جانبدارانہ جانبداری کو سلام کروں۔کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ سعودی عرب کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا مگراس کی آزمائش میں پاکستان کی فطرت تو عیاں ہو گئی۔
خاطر جمع رکھیں ، پاکستان کی منت سماجت کے لئے شاہ سلمان خود آنے سے تورہے۔ عربوں کی حمیت سے ہم آگاہ ہی نہیں۔ہمیں صرف اکڑناآتا ہے، تو اپنے گھر میں اکڑتے رہیں۔اور امریکہ ، چین، بھارت اور افغانستان کے سامنے پلکیں بچھائیں۔ وار�آف ٹیرر کا حصہ بن کر ہمیں جی ا یس پی پلس ملا، وہ لے لیا، سعودی عرب سے جو مل سکتا تھا ، وہ بھی اینٹھ لیا، اب امریکہ سے کیری لوگر کی قسطیں ملتی رہیں گی اور ہم اس کے سامنے اکڑنے کی حماقت نہیں کریں گے۔ہم بہت اچھے بچے ہیں ناں !!