خبرنامہ

کیا پاکستانی نوجوانوں کی تقدیر بدل جائے گی…اسداللہ غالب

کیا پاکستانی نوجوانوں کی تقدیر بدل جائے گی…اسداللہ غالب

پاکستان ایشیا کا دوسرا ملک ہے جس کی 68فیصد آبادی تیس برس سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نوجوان کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ یہ ملکی معیشت کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لئے ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال کر سکتے ہیں اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم دیکھ چکے ہیں کہ فیس بک‘ گوگل اور ایپل جیسی کمپنیوں نے کس طرح پوری دنیا پر اپنا سکہ جما لیا ہے۔ ان عالمی کمپنیوں کے پیچھے بیس سے تیس برس کے نوجوان تھے جنہوں نے دنیا کو کچھ ایسا کر کے دکھانے کی ٹھانی جو روایتی معاشی کلچر سے ہٹ کر ہو اور جس سے پوری دنیا مستفید ہو سکے۔ آج فیس بک جیسی کمپنیوں کی تنہا آمدنی کئی ممالک کے سالانہ جی ڈی پی کے برابر ہے۔ پاکستانی نوجوان کہاں کھڑے ہیں اور کہاں جا سکتے ہیں اس کی ایک مثال ارفع کریم رندھاوا تھی جس نے دس برس کی عمر میں مائیکروسافٹ کا امتحان پاس کیا‘ بل گیٹس نے اسے امریکہ مدعو کیا اور لاہور میں اس کے نام سے آج ارفع سافٹ ویئر پارک کو منسوب کر دیا گیا۔اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو تھوڑی سی سمت دکھائی جائے تھوڑا سا ان کا ہاتھ تھاما جائے تو یہ دنیا کے کونے کونے تک اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں۔

موجودہ حکومت نوجوانوں کے بہت زیادہ ووٹ لے کر آئی ہے۔ نوجوانوں نے اس کی انتخابی مہم میں بھی دل و جان سے حصہ لیا ہے۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان نوجوانوں کی اہمیت کو سمجھتے تھے اسی لئے انہوں نے نوجوانوں کی ٹیم بنائی جنہوں نے ان کے لئے شوکت خانم کے قیام سے لے کر نمل یونیورسٹی اور اب انہیں اقتدار میں لانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ لامحالہ نوجوانوں کی بھی عمران خان سے امیدیں وابستہ ہونا تھیں اور میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت نے کامیاب نوجوان پروگرام لانچ کر کے نوجوانوں سے کیا گیا ایک وعدہ پورا کر دیا ہے۔ یہ صرف ایک پروگرام نہیں بلکہ ایک ایسا روڈ میپ ہے جس میں نوجوانوں کو نہ صرف روزگار حاصل ہو گا بلکہ وہ ملکی معیشت اور استحکام کے لئے بھی ثمر بار ثابت ہوں گے۔ اس مقصد کے لئے حکومت نے نیشنل یوتھ ڈویلپمنٹ نیٹ ورک بنایا تاکہ نوجوانوں کے سماجی اور معاشی ایشوز کا حل نکالا جا سکے۔ اس فریم ورک کے تحت نوجوانوں کی خوبیاں سامنے لانے کے لئے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا گیا جس میں ان کی صحت سے لے کر روزگار کے مسائل تک کا حل نکالنے کے لئے لائحہ عمل طے کیا گیا۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیشنل یوتھ کونسل قائم کی گئی جس کے 33ممبران انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کھیل‘نجی سیکٹر‘مدارس‘ انٹرٹینمنٹ اور این جی اوز سمیت دیگر مختلف شعبوں سے لئے گئے۔اس میں صوبائی یوتھ منسٹرز اور افسران بھی شامل ہیں جو نوجوانوں کے لئے مختلف پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کرواتے ہیں۔
وزیراعظم کامیاب جوان پروگرام تعلیم‘ روزگار اور نوجوانوں کو مختلف شعبوں سے منسلک کرنے پر زور دیا گیا ہے۔اس میں روایتی تعلیم‘ ہنر سکھانے‘ اینٹرپرینورشپ کے لئے نوجوانوں کو تیار کیا جا رہا ہے۔ یوتھ اینٹرپرینور شپ سکیم میں نوجوانوں کو قرضہ جات فراہم کئے جا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے کاروباری آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنا سکیں۔
کامیاب نوجوان پروگرام کے لیے عمر کی حد 21 سے 45 سال تک رکھی گئی ہے، شناختی کارڈ کی شرط لازم ہے۔ تاہم آئی ٹی اور ای کامرس سے وابستہ کاروبار کے لیے کم سے کم حد 18 سال رکھی گئی ہے۔ سمال انٹر پرائزز، نئے یا موجودہ کاروبار کی توسیع کی جا سکے گی۔پاکستانی شہریت لازمی ہو گی۔ آئی ٹی، ای کامرس سے وابستہ کاروبار کے لیے کم سے کم تعلیمی قابلیت میٹرک، 6 ماہ کا تجربہ یا دونوں ہونا ضروری ہے۔ کامیاب نوجوان پروگرام میں حاصل کیا گیا قرض زیادہ سے زیادہ 8 سال کی مدت میں واپس کرنا ہو گا۔ ایک سال تک کا گریس پیریڈ ہو گا۔کاروبار کی نوعیت کے لحاظ سے قرضہ کی رقم کو دو درجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے درجے میں قرض کی حد ایک لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تک ہے۔رعایتی انٹرسٹ ریٹ 6 فیصد سالانہ رکھا گیا ہے۔قرضہ جات کیلئے صرف درخواست دہندہ کی ذاتی ضمانت ضروری ہو گی۔دوسرے درجہ میں قرض کی5 لاکھ روپے سے شروع ہو کر 50 لاکھ روپے تک رکھی گئی ہے۔اس میں رعایتی انٹرسٹ ریٹ 8 فیصد سالانہ رکھا گیا ہے۔ان قرضہ جات کیلئے بینک کی اپنی کریڈٹ پالیسی کے مطابق اثاثہ جات کو رہن رکھوانا ہو گا۔خواتین کیلئے مخصوص کوٹہ رکھنا خوش آئند ہے۔کامیاب نوجوان پروگرام میں عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ اپنے ہنر کو کام میں لائیں، ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹائیں۔ وزیراعظم کی کامیاب جوان یوتھ انٹر پینور شپ سکیم کاروباری مواقع میں اضافے کا باعث ہو گی کیونکہ ہزاروں لاکھوں نوجوان ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس ہنر بھی ہوتا ہے لیکن وہ چند ہزار چند لاکھ روپے نہ ہونے کی وجہ سے کاروبار کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔

نوجوانوں کو ہنر سکھانے کے لئے سکلز فار آل پروگرام کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ نوجوانوں کو عالمی کمپنیوں سے جوڑا جائے گا تاکہ ان کے ہاتھ کی بنائی چیزیں پوری دنیا میں فروغ پا سکیں۔یہ نوجوان ہنر سکھانے والے پچاس اداروں کے دو ہزار اساتذہ سے تعلیم اور ہنر حاصل کریں گے اور کم وقت میں بہت زیادہ سیکھ کر معاشی استحکام حاصل کر لیں گے۔ نوجوانوں کے لئے ایک اور سٹارٹ اپ پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ جس میں سرکاری یونیورسٹیوں کے طلبا کو کاروباری منصوبوں کے لئے تربیت کر کے تیار کیا جائے گا۔سٹارٹ اپ کلچر کو فروغ دینے کے لئے نوجوانوں کو سیمینارز اور دیگر مواقع سے رہنمائی دلائی جائے گی۔ وزیراعظم سٹارٹ اپ پروگرام کے ذریعے دس ہزار سٹارٹ اپس کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ان سٹارٹ اپس کو انڈسٹری‘ تعلیمی اداروں اور بزنس اداروں کی تکون کے ذریعے آپس میں جوڑا جائے گا تاکہ نوجوانوں کے آئیڈیاز عملی سانچے میں ڈھل سکیں اور ان کے ٹھوس اور مثبت نتائج حاصل ہوسکیں۔ یہ بھی خوش آئند خبر ہے کہ سٹارٹ اپ پاکستان کا ابتدائی مسودہ تیار کر لیا گیا ہے اور ایچ ای سی کو منظوری کے لئے بھیج دیا گیا ہے۔ایچ ای سی ایک ایسا انکوبیشن ماڈل بنائے گی جو نوجوانوں کو اینٹرپرینورشپ کے لئے پانچ لاکھ تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کرے گی جس کا حتمی مقصد پورے ملک سے بہترین کاروباری ماڈلز پر مشتمل پانچ سو سٹارٹ اپس کا قیام ہے۔
نوجوانوں کو ماحولیاتی چیلنجز سے آگاہی دلانے کے لئے گرین یوتھ موومنٹ پروگرام سود مند ثابت ہو گا کیونکہ اس میں پانی ضائع ہونے سے بچانے سے لے کر ٹرانسپورٹ کے دھوئیں سے پھیلنے والی آلودگی سے بچنے کے لئے آگاہی دلائی جائے گی۔ جو نوجوان ماسٹر مکمل کر لیں گے انہیں عملی تربیت دینے کے لئے انٹرن شپ پروگرام کے ذریعے ٹریڈ ایسوسی ایشنز‘ ٹریڈ باڈیز اور چیمبر آف کامرس کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔نوجوانوں کے اذہان میں جو سوالات یا اشکالات آتے ہیں ان کے حل کے لئے کامیاب جوان آن لائن پورٹل لانچ کیا گیا ہے۔نوجوان گھر بیٹھے کبھی بھی کمپیوٹر کے ذریعے آن لائن رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔جوان مرکز پروگرام کے ذریعے نوجوان کی کیریئر کونسلنگ اور عملی تربیت کے لئے رہنمائی کی جائے گی۔اسی طرح یوتھ ڈویلپمنٹ کے لئے انٹرنیشنل سطح پر مختلف ممالک کے اداروں سے شراکت کی جائے گی تاکہ نوجوانوں کو عالمی چیلنجز کے لئے تیار کیا جا سکے۔
نوجوانوں کو جتنی سہولیات حکومت دینے جا رہی ہے اس سے نوجوان نہ صرف اپنی بلکہ ملک کی تقدیر بھی بدل سکتے ہیں۔ ضرورت بس مصمم ارادء‘ انتھک محنت اور مسلسل کوشش کی ہے۔