خبرنامہ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پہلے سود ن‘ سو کہانیوں کی پہلی کہانی
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے پہلے سو دن مکمل کر لئے۔ اب موازنہ شروع ہے کہ وعدے کیا تھے اور حاصل کیا ہوا۔
انسان کی نگاہ البتہ مثبت باتوں پر ہونی چاہئے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ حالیہ الیکشن فوج کی نگرانی میں ہوا تاکہ اسے منصفانہ‘غیر جانبدارانہ اور شفاف بنایا جا سکے۔ یہ ایک کٹھن کام تھا۔ اسے خلائی مخلوق کا طعنہ دیا گیا مگر فوج اس فیصلے پر تلی ہوئی تھی کہ ملک کے الیکشنوں پر اعتراضات کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ الیکشن متنازعہ ہو جائے توسارا نظام متنازعہ ہو جاتا ہے اور ملک میں انتشار اور خلفشار پھیل جاتا ہے۔ ہر کوئی اپنا سکہ چلانے کی کوشش کرتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کھوٹے اور کھرے سکوں کی پہچان نہیں ہو پاتی۔
یہ مرحلہ کامیابی سے مکمل ہوا، عمران خان کی حکومت بنی۔ صوبوں میں بھی عو امی مینڈیٹ کے مطابق حکومتیں قائم ہوئیں اور ایک نظام پٹڑی پر چل نکلا۔
عمران خان نے وکٹری تقریر میں بھارت سے کہا کہ وہ ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھیں گے۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ عمران یہ بات فوج کو اعتماد میں لئے بغیر نہیں کہہ سکتے تھے۔ بھارت نے وہی کرنا تھا جووہ اکہتر برسوں سے کرتا چلا آیا ہے۔
عمران خان سے آرمی چیف پہلی ملاقات کے لئے گئے تو ان کو بٹھانے کے لئے کسی بنچ پر سبز کپڑا ڈال کر آمنے سامنے کرسیاں نہیں رکھی گئیں۔ جیسا کہ نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کی تذلیل کی تھی۔ عمران نے آرمی چیف کو جو عزت دی تو انہیں بھی جواب میں عزت دی گئی اور جی ایچ کیو میں تمام فوجی قیادت میز کے ایک جانب اور سول قیادت میز کی دوسری جانب تشریف فرما تھی اور وزیر اعظم اس اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ ا س طرزکی سول ملٹری بریفنگ کا کوئی اجلاس آج تک پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا۔ اسی طرح عمران خان جی ایچ کیو میں یو م شہدا کی تقریب کے مہمان خصوصی بنے تو انہیں فوج نے سر آنکھوں پہ بٹھایا۔
عمران خان کو فوج کے ساتھ جو اچھے تعلقات کار ملے تو ان سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔ انہیں امریکہ نے جلی کٹی سنائیں تو عمران خان نے بھی اسی زبان میں جواب دیا مگر امریکیوں کی وہ بے عزتی نہیں کی کہ امریکی سفیر کو ملاقات کے لئے تڑپایا ہو۔جیسا کہ نواز شریف نے کئی ماہ تک اسے ملاقات کا وقت ہی نہیں دیا تھا۔سعودی سفیر تو عمران خان کے حلف اٹھانے سے قبل ہی بنی گالہ پہنچے۔
عمران ا ور فوج کے درمیان نہ کسی کارگل کی خلیج حائل تھی‘نہ عمران نے کسی جعلی آرمی چیف کو بٹھانے کی کوشش کی تھی، نہ عمران نے فوج کے خلاف کوئی ڈان لیکس کیا تھا۔ ا س لئے عمران ا ور فوج متوازن طریقے سے ہاتھوں میں ہاتھ دیئے آگے بڑھتے رہے۔
میں یہ نہیں مانتا کہ جب عمران کی حلف برداری کی تقریب ہو رہی تھی تو آرمی چیف نے بھارتی مہمان سدھو کو اپنی طر ف سے کرتار پور بارڈر کھولنے کی پیش کش کر دی تھی۔ میرے نزدیک اس کے لئے دونوں کے مابین مکمل مشاورت ہو چکی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ پیش کش آرمی چیف نے کر دی۔ اس بنا پر جو واویلا بھارت میں مچایا گیا‘وہ اب تاریخ کا حصہ بن گیا ہے کہ پہلے تو سدھو کو غدار تک کہہ ڈالا اور پھر اسی کو ملنے والے پیغام کی تکمیل کی حمائت بھارتی سرکار کو کرنا پڑی۔ کرتار پور کوریڈور کی سنگ بنیاد کی تقریب منعقد ہوئی۔اس میں سشماسوراج نہیں آئیں۔ انہوں نے نہیں آنا تھا مگر ان کے نہ آنے سے جس انقلاب نے انگڑائی لینا تھی‘ اس میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا، اس تقریب کے دولہا عمران خان تھے‘ شاہ محمود قریشی تھے اور بھارت سے آنے والے معززین تھے۔ پاکستان کے آرمی چیف نے اس تقریب میں منصبی ذمے داریوں کے تحت شرکت کی جس سے اس تقریب کو مزید تقویت مل گئی اورا سے سند جواز عطا ہو گئی،عمران نے یہ کہانی بھی کھول دی کہ جب وہ کرکٹ کے لئے بھارت جاتے تھے تو ان کے بھارتی دوست انہیں طعنہ دیتے تھے کہ پاک آرمی دونوں ملکوں کے درمیان دوستی استوار کرنے میں حائل ہے مگر کرتار پور کوریڈور میں پاک ا ٓرمی چیف نے جوکھل کر کردار ادا کیا‘ اس سے بھارتی اندیشے بے بنیاد ثابت ہو جاتے ہیں۔کرتارپور پر تنقیدہوئی کہ کوئی اور وزیر اعظم یہ حرکت کرتا تو وہ غداری کا مقدمہ بھگت رہا ہوتا۔ یہ طعنہ دینے والے بھول جاتے ہیں کہ عمران ا ور کسی دوسرے وزیر اعظم کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ عمران خطے کے عوام کے مفاد میں یہ کام کرنا چاہتا ہے جبکہ دوسرے وزیر اعظم اپنی لوہے کی بھٹیوں کو گرمانے کے لئے یہ کام کرنا چاہتے تھے، ان کے ذاتی مفادات تھے۔ عمران کاکوئی ذاتی مفاد نہیں اور فوج ا س حقیقت سے بخوبی آشنا ہے۔
عمران کی حکومت نے آئی ایس آئی کے ساتھ کسی ہڑبونگ کا مظاہرہ نہیں کیا، نواز شریف تو ایک لشکر لے کر اس کے دفتر میں جا پہنچے تھے مگر عمران خاں نے ملاقات کا وقت طے کر کے صرف متعلقہ وزرا کو ساتھ لیا اور اس ادارے سے سیکورٹی پر بریفنگ لی۔ عمران اس سانحے سے بھی محفوظ ہے کہ حامد میر پر گولیاں چلیں تو وزیر اعظم نواز شریف حامد میر کی عیادت کے لئے گئے اور آرمی چیف جنرل راحیل کو جواب میں آئی ایس آئی کے دفتر کا رخ کرنا پڑا۔ ملک ایک تھامگر حکومت اور فوج کے قبلے الگ الگ۔
آخری فتنہ جس نے نوازشریف کی قسمت سر بمہر کر دی‘ وہ ڈان لیکس کا تھا۔ عمران خان نے پوری احتیاط برتی ہے اور ایسی کسی شرارت کو سرا ٹھانے کا موقع نہیں دیا۔
یہ پہلا موقع ہے کہ فوج کو ملکی معیشت کے بگاڑ کا پورااحساس ہے اور وہ اسے درست کرنے کے لئے اپنا کردار آگے بڑھ کرادا کر رہی ہے۔ فوج نے اس کا ہر گز کریڈٹ نہیں لیا مگر جب تجزیہ کیا جاتا ہے تو یہ بات ماننا پڑے گی کہ چین، سعودیہ، ابو ظہبی جیسے دوستوں سے ابتدائی بات چیت کے لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دورے کئے اورو زیرا عظم کی کامیابی کے لئے راستہ ہموار کیا۔
فوج اور حکومت میں اگرچہ کوئی مخاصمت تو نہ تھی‘ پھر بھی دونوں ریاستی اداروں کو قریب لانے میں تحریک لبیک نے اپنے دھرنے سے کردار ادا کیا، یہ دھرنا ایک عدالتی فیصلے کے خلاف دیا گیا مگر دھرنے والوں نے لوگوں کو اکسایا کہ وہ فیصلہ دینے والے ججوں اور آرمی چیف پر حملہ کریں۔ وزیر اعظم نے ان لوگوں کی سرزنش میں پہل کی اور حکومتی رٹ قائم کرنے کا اعلان کیا۔ فوج کے ترجمان نے بھی اسی عزم کو دہرایا۔یہ دھرنا تو مذاکرات کے ذریعے پر امن طور پر ختم کرا دیا گیا مگر بعد میں دھرنے والے دھر لئے گئے اور اب ان کی قسمت ریاستی رٹ کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔ آخری نتیجہ کیا نکلتاہے‘ یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر دھرنے نے حکومت اور فوج کو ایک ہی کشتی میں سوار کر دیا ہے۔
تو یہ ہے سو دنوں کی پہلی کہانی جس سے ثابت ہوتاہے کہ موجودہ حکومت نے پہلے سو دنوں میں فوج کے ساتھ خوب بنا کر رکھی ہے اور یہی اس کی اب تک کی کامیابی کی اصل وجہ ہے۔