خبرنامہ

وفاقی حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں میں دوریاں بڑھنے لگیں

ہماری نیتیں خراب ہیں!

وفاقی حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں میں دوریاں بڑھنے لگیں

وفاقی حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں میں دوریاں بڑھنے لگیں‘فنکشنل لیگ سندھ کے سیکرٹری جنرل سردار عبدالرحیم نے کہا ہے کہ فنکشنل لیگ نے وفاقی حکومت سے لاتعلقی اختیار کر لی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ سمت نظرنہ آرہی ہو تو گھبراہٹ ہوتی ہے ‘ حکومت نے سنجیدہ فیصلے نہ کئے تو بے چینی مزید بڑھے گی۔

ادھر لاہور میں مسلم لیگ(ق) کی سینٹرل کمیٹی کا اجلاس ہواجس میں حکومتی طرزعمل پر افسوس کا اظہار کیا گیا‘سینیٹر کامل علی آغا کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کے رویہ کے حوالے سے پارٹی کی طرف سے بڑی شکایات آ رہی ہیں‘حکومت صرف اپنے کام اور مطلب کیلئے ہی ہم سے رابطہ کرتی ہے ‘ سینٹرل کمیٹی کا اجلاس آج بھی جاری رہے گا‘ مشاورت کے بعد پارٹی منشور کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے اپنے قریبی ساتھیوں سے مشاورت کے بعد حکومتی ٹیم کو کہاہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ‘ مشکل وقت ہے ‘جلد قابوپالیں گےجبکہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اپوزیشن تھکے ہوئے پہلوانوں کا ٹولہ ہے‘اتحادیوں سے بات ہوجائے گی ۔

تفصیلات کے مطابق چوہدری شجاعت کی ہدایت پرپارٹی کی سینٹرل کمیٹی کا اجلاس اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویزالٰہی کی زیرصدارت ہوا‘اجلاس میں موجودہ اور آئندہ سیاسی صورتحال اور پنجاب حکومت کے رویہ پر تحفظات کے حوالے سے کھل کر تفصیلی بحث کی گئی اور آئندہ کا لائحہ مرتب کیا گیا۔ سینیٹر کامل علی آغا نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب انہیں کو ئی کام ہو تب ہی رابطے کرتے ہیں‘مشاورت کے بعد پارٹی منشور کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔

دریں اثناء عمران خان کی زیر صدارت پی ٹی آئی کور کمیٹی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم نے اپوزیشن کے سیاسی معاملات پر گفتگو سے گریز کیا جبکہ اجلاس میں معیشت مہنگائی اور عوامی ریلیف کے اقدامات زیر بحث رہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے گزشتہ روز کے میچ میں ٹیم کی بعض غلطیوں کا ذکرکیا اور کہا کہ ٹیم آخر تک پر اعتماد رہتی تو نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا۔وزیراعظم کا کہنا تھاکہ لوگوں کو آسان الفاظ میں بتائیں کہ حکومت ان کیلئے کیا کر رہی ہے۔

کورکمیٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ انتخابی اصلاحات پر میکنزم بن چکا ہے‘ اتفاق رائے پیدا کرنا چاہتے ہیں‘ بلاول بھٹو کو لاڑکانہ کی گلیوں کا نہیں پتہ، پاکستان کی سیاست کا کیا پتہ ہوگا‘اپوزیشن ایک دوسرے کا سہارا لے کر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہی ہے‘ اپوزیشن کو ہماری انتخابی اصلاحات پسند نہیں تو اپنی لے آئے۔

اس پر بات کرلیتے ہیں‘دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کی معیشت تیزی سے فروغ پا رہی ہے‘ مزدور، مستری، پلمبر، عام دکانداروں سمیت کئی طبقات کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور ٹریکٹروں کی فروخت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے‘ کورونا کی وجہ سے دنیا کو جو جھٹکا لگا ہے، اس سے باہر آنے میں وقت لگے گا۔

مہنگائی کی وجہ سے تنخواہ دار طبقہ کو مشکلات کا سامنا ہے لیکن زیادہ تر طبقات کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے‘ہماری خواہش ہے کہ انتخابی اصلاحات پارلیمنٹ میں جلد منظوری کے لئے آئیں‘ اسپیکر قومی اسمبلی اپوزیشن سے رابطے میں ہیں۔انتخابی اصلاحات پر ہم سب کو آگے لے کر بڑھیں گے۔

فضل الرحمان پہلے بھی جتھہ لے کر اسلام آباد آ گئے تھے، یہ ایک دوسرے کا سہارا لے کر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کو طاقت کی گولیاں چاہئیں جو انہیں میسر نہیں، یہ کھڑے ہوتے ہیں اور گر جاتے ہیں، یہ ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں، جب پائوں، ٹانگیں اور طاقت اپنی نہ ہو تو کون کہاں تک چل سکتا ہے؟

علاوہ ازیں جیو کے پروگرام ’’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ حکومت کے ساتھ ہمارے مسائل ہیں اس کا اظہار کئی بارکرچکے ہیں، وزیراعظم سے درخواست کی تھی قانون سازی پہلے ہمارے ساتھ شیئر کی جائے‘حکومت اتحادیوں کو پہلے سے آن بورڈ لے تو ہم بدنامی لے کر بھی ساتھ دے سکتے ہیں۔

اسی طرح میڈیا سے اطلاعات ملتی رہیں تو ہمیں اپنے کردار کے بارے میں کسی دن فیصلہ کرنا پڑجائے گا۔حکومت کی جانب سے ڈلیور کرنے کی امید ہے لیکن یقین نہیں ہے۔صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اعتماد کی فضا میں ڈینٹ پڑا یا نہیں وقت بتائے گا، حکومت پر اعتماد ہے لیکن چاہتے ہیں عدم اعتماد ایوان میں نہ کریں بند کمروں میں کریں، حکومت نے سنجیدہ فیصلے نہ کئے تو بے چینی مزید بڑھے گی۔

مسلم لیگ ق کے رہنما کامل علی آغا نے کہا کہ حکومت پالیسی سازی سمیت کسی ایشو پر ہم سے مشاورت نہیں کرتی‘ حکومت کو جب ضرورت پڑتی ہے تب ہی ہم سے بات کرتی ہے پھر غائب ہوجاتی ہے، پی ٹی آئی کے لوگ پارٹی کے اندر بھی مشاورت نہ ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ہمارے قومی و صوبائی ارکان اسمبلی بھی حکومتی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔

کامل علی آغا نے کہا کہ حکومت کی کارکردگی وجہ سے ہم پر ووٹرز کا شدید دباؤ ہے‘مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل حل نہیں ہوئے تو عوام کے پاس کیسے جائیں گے‘حکومت خود کو درست کرلے تو ہم اپنے معاہدے پر قائم ہیں