خبرنامہ

کالا باغ ڈیم کے پُرجوش حامی … قسط 8..ظفر محمود . چیئر مین واپڈا

یہ ایسی ناسمجھی ہے ، جس نے اس منصوبے کو متنازعہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس منصوبے کی تعمیر کیلئے پرجوش دلالت کرنے والے مصنفین کی اکثریت دونوں صوبوں کے مابین گذشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران پانی کے مسائل پر کشاکش کی تاریخ سے واقف نہیں ۔ یہ مفروضہ قائم کرنا کہ سندھ کی جانب سے کالاباغ ڈیم کی مخالفت بلا جواز ہے ، ایک مجرمانہ بے حسی ہے۔ اگر اس متنازعہ معاملے پر اتفاقِ رائے کی کوئی صورت تلاش کرنی ہے تو ہمیں پانی کے معاملات پر زیریں علاقوں میں مقیم لوگوں riparians) (lowerکی حساسیت کو خلوصِ دل کے ساتھ مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
سندھ کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کیلئے اُس قلبی لگاؤ اور ذ ہنی کیفیت کو سمجھنا پڑے گا، جو سندھ جیسے عظیم دریا کے صدیوں پرانے بلارکاوٹ بہاؤ سے وابستہ ہے۔ یہ کیفیت سندھ کی اجتماعی نفسیات کے نہاں خانوں میں جاگزیں ہے۔دریائے سندھ کے آزادانہ بہاؤ میں پہلی سنجیدہ رکاوٹ اس وقت نظر آئی جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب کے میدانی علاقوں میں نہریں تعمیر کرنے کے منصوبے بنائے ۔ اس کوشش کا مقصد سکھوں کے اُن سرکش اور لٹیرے قبائل کو آبادکرنا تھا جو انگریزوں کے ہاتھوں پنجاب میں اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد قافلوں کی لوٹ مار کرتے تھے۔بعد ازاں برطانوی حکومت نے وسیع و عریض نظامِ آبپاشی کی تعمیر جاری رکھی جس کی بدولت ایک کروڑ 55 لاکھ ایکڑ زمین زیرِکاشت لائی گئی۔ مغربی پنجاب کے لوگوں کیلئے یہ ایک مستحسن پیش رفت تھی ، تاہم سندھ میں اِسے انتہائی خدشات بھری نظروں سے دیکھا گیا۔ پنجاب میں بیشتر تجزیہ کاروں اور ماہرین نے انڈین اری گیشن کمیشن (1901)، کاٹن کمیٹی رپورٹ (1919)، اینڈرسن کمیٹی (1935-37)اور جسٹس راؤ کمیشن رپورٹ (1942)کے نتائج اور سندھ اور پنجاب کے درمیان 1945 ء کے مجوزہ معاہدے کی جزئیات کے بارے میں شاید نہ سُنا ہو، لیکن تاریخ میں ہونے والی یہ پیش رفت کسی بھی سندھی قوم پرست کی جانب سے لکھے گئے مضمون یا کتاب کا نکتۂ آغاز ہوتی ہیں۔
یہ اہم قانونی اور انتظامی سنگ میل ہیں جو بالائی علاقوں سے اپنے آبی حقوق کے تحفظ کیلئے ،سندھ کی طویل اور دشوار جدوجہد کے عکاس ہیں۔ پہلے بمبئی پریزیڈنسی کا حصہ ہونے اور 1935 ء کے بعد ایک علیحدہ صوبے کے طور پرسندھ کو ہمیشہ بالائی علاقوں کی نیّت کے بارے میں خدشات لاحق رہے۔ اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 1947ء سے قبل دریائے ستلج پر بھاکڑہ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ سندھ نے کبھی سندھ طاس میں پانی ذخیرہ کرنے کے کسی منصوبے کی حمایت نہیں کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1961 ء میں سکھر لاء کالج کے طلباء سے خطاب کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خطاب کیلئے جس موضوع کا انتخاب کیا وہ ’’ بین الاقوامی قانون میں زیریں علاقوں کے حقوق‘‘ تھا۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ میں تعلیم یافتہ طبقہ اور سیاسی قیادت ہمیشہ دریائے سندھ کے پانی کے معاملے پر فکرمند رہے ہیں اور دوسرے صوبوں میں رہنے والے لوگوں کو اُن کے جذبات سمجھنے کیلئے حساس طرزِ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ (بھٹو صاحب کا خطاب اس رپورٹ کے ضمیمہ I پر موجود ہے ۔علاوہ ازیں اِس خطاب کو واپڈا کی ویب سائٹ www.wapda.gov.pk پربھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے )
1932 ء میں سکھر بیراج کی تعمیر کی صورت میں نہری آبپاشی کے فوائد صوبہ سندھ تک بھی پہنچائے گئے۔ آزادی کے حصول کے بعد حکومتِ پاکستان نے گڈو اور کوٹری بیراج تعمیر کئے۔ اضافی رقبہ کو سیراب کرنے کیلئے گڈو بیراج سے پٹ فیڈر ، ڈیزرٹ سندھ فیڈر اور گھوٹکی فیڈر کے نام سے نہریں نکالی گئیں جبکہ کوٹری بیراج پر لائنڈ، پھلیلی، پنیاری فیڈر اور کلری بیگھار فیڈر نامی نہریں تعمیر کی گئیں۔ عام حالات میں آبپاشی کے ان ترقیاتی منصوبوں کا سندھ کی جانب سے خیرمقدم کیا جانا چاہیئ تھا کیونکہ ان منصوبوں کی وجہ سے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضرورت پورا کرنے کیلئے زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا اور علاقے نے اقتصادی ترقی کی ۔ لیکن سندھی قوم پرست اس پیش رفت کو شاکی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ نہروں کی توسیع کے باعث اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کے مخالف تھے بلکہ اس کا محرک زمینوں کی الاٹمنٹ میں وہ مبینہ امتیازی سلوک تھا، جو اُن لوگوں کو نوازنے کیلئے روا رکھا گیا، جو سندھ کی سرزمین کے فرزند نہیں تھے۔
اگرچہ برصغیر میں سب سے پہلے پروان چڑھنے والی سندھی تہذیب نے صوبہ سندھ میں رہنے والے لوگوں کے رویے میں برداشت کا عنصر پیدا کیا ہے لیکن آزادی کے بعد سندھ کی زراعت میں غیرسندھی کاشتکاروں کی آمدنے جو تلخی پیدا کی اس نے نہری آبپاشی کے زیرِکاشت علاقوں میں اضافے کے فوائد کو گہنا دیا۔
1984 ء میں جب کالاباغ ڈیم کا منصوبہ پہلی بار صدر ضیاء الحق کی کابینہ میں پیش کیا گیا تو سندھ نے پانی کی دستیابی اور سیلابے کی اراضی میں کاشتکاری پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیااور اس منصوبے کے حوالے سے مزید تحقیق کا مطالبہ کیا ۔ بالآخر یہ منصوبہ پی سی II- کی صورت میں مارچ 1989 ء میں سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی(سی ڈی ڈبلیو پی) کے سامنے منظوری کیلئے پیش کیا گیا۔ یہ وہ فورم ہے جہاں تمام صوبوں کی نمائندگی موجود ہے۔ سی ڈی ڈبلیو پی کے اجلاس میں مذکورہ پی سی II- کی مشروط منظوری دی گئی اور وزارتِ پانی و بجلی کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ منصوبے کے حوالے سے مزید مطالعات کی ضرورت کا جائزہ لے اور خیبرپختونخوا اور سندھ کی حکومتوں کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات پر رپورٹ پیش کرے۔ سندھ کی حکومت نے 9اعتراضات کئے جو زیادہ تر پانی کی دستیابی، صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا ممکنہ طریقہ کار اور ڈیم سے آبپاشی کیلئے نہریں نکالنے سے متعلق تھے۔ یہ اعتراضات حقیقی نکات پر مشتمل تھے اور ضرورت تھی کہ چھوٹے صوبوں کی تشویش کو حساسیت اور ہمدردی کے ساتھ دورکیا جائے ۔چھوٹے صوبے صرف یہ چاہتے تھے کہ منصوبے کو ایکنک میں پیش کرنے سے قبل پراجیکٹ کنسلٹنٹ کے اخذ کردہ نتائج کی توثیق کیلئے مزیدتحقیق کے لئے مطالعات کرائے جائیں۔وزارتِ پانی و بجلی پہلے ہی چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل(ریٹائرڈ) زاہد علی اکبر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے چکی تھی۔ انہوں نے کمیٹی کا اجلاس بلایا تاہم صوبہ سندھ کے دو نمائندے اس اجلاس میں شریک نہیں ہوسکے۔ چیئرمین واپڈا نے اجلاس میں سندھ کے نمائندوں کی عدم شرکت کے باوجود وزارتِ پانی و بجلی کو یہ رپورٹ ارسال کی کہ مذکورہ معاملات کے حوالے سے منصوبے پر مزید مطالعات اس کمیٹی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ رپورٹ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زیریں علاقے کے جذبات اور خدشات کے بارے میں عدم حساسیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس وقت سندھ صرف چند یقین دہانیوں اور کنسلٹنٹ کے نتائج اور سفارشات کی ازسرِنو تصدیق چاہتا تھا۔ بنیادی طور پر سندھ حکومت پانی کی دستیابی کے بارے میں تشویش کا شکار تھی اور اس بات کی مطلق یقین دہانی چاہتی تھی کہ ڈیم سے آبپاشی کیلئے نہریں نکالنے کا کوئی آپشن نہیں رکھا گیا۔ وہ سندھ میں زیر عمل آبپاشی کے منصوبوں کیلئے درکار پانی، سیلابے کے علاقے میں پڑنے والے اثرات کے بارے میں مطالعات کی ازسرِنو تصدیق اور انڈس ڈیلٹا میں ماحول کو بچانے کے لئے کوٹری بیراج سے نیچے پانی کے اخراج کے بارے میں بھی یقین دہانی چاہتی تھی۔ سندھ کے نمائندوں کی عدم موجودگی میں اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ چیئرمین واپڈا کے نامناسب اور نقصان دِہ رویّے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ رویہ وزیراعلیٰ سندھ آفتاب شعبان میرانی کی ناراضی کا باعث بنا۔ انہوں نے وزیراعظم کو مکتوب تحریر کیا کہ سی ڈی ڈبلیو پی کی ہدایت پر تشکیل دی جانے والی کمیٹی نے سندھ حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے نکات پر غور نہیں کیا گیا ۔ انہوں نے تجویز کیا کہ صوبے کے اعتراضات کو دُور کرنے کے بعد ہی اس منصوبے کو ایکنک میں پیش کیا جائے۔ یہ بات باعثِ تعجب نہیں ہے کہ اس خط کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے منصوبے کی منظوری کیلئے ایکنک کا اجلاس نہیں بلایا۔ اگست 1990ء ان کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔ اس دن سے آج تک یہ منصوبہ دوبارہ کبھی منصوبہ بندی کمیشن میں باقاعدہ زیرِ بحث نہیں لایا گیا۔ علاوہ ازیں 1991 ء میں پانی کی تقسیم کے معاہدے کے بعد سندھ اسمبلی تین مختلف اوقات میں کالاباغ ڈیم کے خلاف قراردادیں منظور کرچکی ہے۔ لہٰذا جولوگ یہ چاہتے ہیں کہ اس منصوبے پر کسی سمجھوتے کے امکانات کو تلاش کیا جائے، انہیں سندھ کے مؤقف کو کُھلے ذہن کے ساتھ سمجھنا ہوگا۔