خبرنامہ

سو فیصد غلط خبریں دینے والے اینکر بھی کریڈٹ کی دوڑ میں پیش پیش..تجزیہ: قدرت ا للہ چودھری

میڈیا میں خبروں کا کریڈٹ لینے کی بھی ایک دوڑ ہر وقت لگی رہتی ہے، سچی خبروں پر خبریں دینے والوں کا کریڈٹ تو بنتا ہے لیکن ایک اینکر ایسا بھی ہے جس نے کئی ہفتوں تک اپنی ویب سائٹ پر بڑی ڈھٹائی سے یہ خبر چلائی کہ جنرل راحیل شریف کو ان کے دورۂ امریکہ کے دوران اسی طرح برطرف کردیا جائیگا جس طرح جنرل (ر) پرویز مشرف کو ان کے دورۂ سری لنکا کے دوران ہٹا دیا گیا تھا، جس اینکر نے یہ خبر دی وہ آج بھی اپنا پروگرام پوری شدومد سے کر رہے ہیں اور انہوں نے جو سو فیصد غلط خبر دانستہ اڑائی تھی جب وہ ہر پہلو سے غلط ثابت ہوگئی تو بھی ان کے ماتھے پر عرقِ انفعال کا کوئی قطرہ نمودار نہیں ہوا، اس اینکر کی تقریریں اسی جوش و جذبے سے اب تک جاری ہیں، ان کے خطبے کی روانی میں کوئی کمی نہیں آئی، وہ جھوٹ بول کر کریڈٹ لینے کے فن میں یکتا ہیں اور اب تک اس راستے پر بگٹٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ یہ صرف ایک قصہ نہیں، اس سلسلے میں درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔جنرل راحیل شریف اپنے عہدے کی مدت پوری کرکے 29 نومبر کو فوج کی کمان جنرل قمر جاوید باجوہ کے سپرد کر رہے ہیں، اس سلسلے میں پرشکوہ اور پروقار تقریب جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہوگی جس کی تیاریاں جاری ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے 29 نومبر 2013ء کو پاک فوج کے سپہ سالار (چیف آف آرمی سٹاف) کا عہدہ سنبھالا تھا، اس عہدے کی میعاد تین برس ہے۔ سال رواں کے شروع میں جنرل راحیل شریف کی طرف سے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے عہدے کی مدت پوری کرکے ریٹائر ہونا پسند کریں گے۔ اگرچہ یہ اعلان قبل از وقت تھا لیکن انہوں نے غالباً اس کی ضرورت اس لئے محسوس کی تھی کہ بہت ہی قبل از وقت یہ باتیں شروع کردی گئی تھیں کہ انہیں عہدے کی مدت میں توسیع دی جانی چاہئے۔ یہ مطالبہ اپنی جگہ قبل از وقت تھا کیونکہ ایسا مطالبہ عام طور پر مدت کے اختتام کے قریب ہی سامنے آتا ہے، لیکن جنرل راحیل کے معاملے میں یہ مطالبہ ذرا جلدی نہیں، بہت ہی جلدی بلکہ جلد بازی میں کردیا گیا اور اس ضمن میں ان کی اپنی خواہش اور ارادے کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ توسیع کا معاملہ سامنے آیا تو بڑے بڑے لوگوں نے اس بحث میں حصہ لینا شروع کردیا، جن میں سابق فوجی اور سویلین سیاستدان دونوں شامل تھے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے کئی بار اپنا یہ مطالبہ دہرایا، غالباً وہ یہ محسوس کرتے ہوں گے کہ اس وقت وہ اگر عدالتوں سے چھپ چھپا کر بیرون ملک بیٹھے ہیں اور کبھی کبھار کسی کلب میں جاکر ڈانس بھی کرلیتے ہیں تو ایسا اس لئے ممکن ہوا کہ وہ عدالتوں میں یہ میڈیکل سرٹیفکیٹ دے کر بیرون ملک آگئے کہ ان کی صحت خراب ہے، صحت کے پرابلم اس عمر میں تھوڑے بہت تو ہوتے ہیں لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف نے اس میڈیکل سرٹیفکیٹ کا حجاب بھی نہ رہنے دیا جس کی بنیاد پر وہ بیرون ملک گئے۔ اسی طرح بہت سے سیاستدان یہ چاہتے تھے کہ جنرل راحیل شریف کو توسیع مل جائے۔ میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ خواہش رکھنے والے ایسا جنرل راحیل شریف کی محبت میں کر رہے تھے یا ان کے پیش نظر اپنا کوئی جلی یا خفی مقصد تھا۔ پھر جنرل راحیل شریف نے خود یہ اعلان کردیا کہ وہ اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہونا چاہیں گے، تو ان کے اس فیصلے کی حکمت کو سمجھنے کی ضرورت تھی، لیکن شتر بے مہار سوشل میڈیا میں ہر کسی نے اپنی رائے کو ہی مقدم رکھا۔ یہاں تک کہ جب جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی مدت بہت قریب آگئی اور انہوں نے الوداعی ملاقاتوں کا آغاز بھی کردیا تو بھی ایک تجزیہ نگار نے یہ انوکھا تجزیہ کیا کہ ’’ریٹائرمنٹ کا باب ابھی بند نہیں ہوا‘‘۔ آپ اسے سادگی کہیں گے یا پرکاری؟اس میں تو کلام نہیں کہ جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم نواز شریف کے الفاظ میں فرنٹ سے فوج کی قیادت کی اور لوگوں کے دلوں میں گھر کرگئے، بطور آرمی چیف جتنے متحرک وہ تھے شاید ہی کسی دوسرے آرمی چیف نے اس کا مظاہرہ کیا ہو، ان کے دور میں آپریشن ضرب عضب زوروں پر رہاجس کی وجہ سے دہشت گردی پر قابو پانا ممکن ہوا اور اسی کی وجہ سے کراچی میں امن و امان بحال ہوا۔ ان کے پورے عہد میں فوجی افسر اور جوان تاریخ شہادت میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھواتے رہے اور انہی کی قربانیوں کی بدولت دہشت گردوں نے راہ فرار اختیارکی۔ جنرل راحیل شریف کی مبنی بر حق لیکن سخت گیر پالیسی کی وجہ سے کراچی میں کئی عشروں کے بعد امن و امان قائم ہوا ورنہ یہ شہر ایک کال پر آدھے پونے گھنٹے میں خود کار طریقے سے بند ہو جاتا اور کھل جاتا، بھتہ خور دندناتے پھرتے تھے، ٹارگٹ کلرز کے خوف کی چادر ہر وقت شہر پر تنی رہتی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ جو لوگ شہر بند کرانے کے ’’احکامات‘‘ پر عملدرآمد میں پیش پیش ہوا کرتے تھے وہ خود باغی ہوگئے اور انہیں احساس ہوا کہ پڑھے لکھے لوگوں کو قاتل اور جرائم پیشہ بنا دیا گیا ہے۔ لوگوں کے دل یوں ہی نہیں بدل جاتے۔ کرپشن کی کہانیاں بھی کراچی آپریشن کے نتیجے میں سامنے آئیں۔ اب نئے چیف کو جو چیلنج درپیش ہوں گے ان میں اندرون ملک دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ سرحدوں پر مودی کی دھمکیوں سے عہدہ برا ہونا بھی شامل ہے۔ مودی نے کشمیر کی کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزیاں شروع کر رکھی ہیں، سرجیکل سٹرائیک کے دعوے بھی کئے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال سے فوج نے حکمت عملی کے ساتھ نپٹنا ہے، بھارتی جارحیت کے مقابلے میں بند باندھنا ہے۔ نئے آرمی چیف کو عہدہ سنبھالتے ہی اپنی حکمت عملی طے کرنا ہوگی، دیکھنا ہوگا کہ جنرل راحیل شریف کی پالیسیوں کا تسلسل کس حد تک قائم رہتا ہے۔