ضیا شاھد کے انکشافات

اُستاد محترم…. ڈاکٹر سید عبداللہ ….ضیا شاہد

محترم ڈاکٹر سید محمد عبداللہ یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور کے پرنسپل تھے جب میں نے ایف اے کے بعد ڈائریکٹ بی اے آنرز ان لینگوئجز میں داخلہ لیا۔ یہ پنجاب یونیورسٹی کی نئی سکیم تھی۔ بی اے آنرز دو سال کی بجائے تین سال میں ہوتا تھا البتہ اس سکیم کے تحت ایم اے کے لئے صرف ایک سال درکار ہوتے تھے۔ بی اے آنرز میں ہمیں ایک مضمون چننا پڑتا تھا جس میں آنرز کی ڈگری ملتی تھی۔ میرے دوستوں میںمسرور کیفی اور جاوید احمد خان اردو میں آنرز کر رہے تھے۔ میں اور حسن عبداللہ عربی میں آنرز کر ہے تھے۔ بعدازاں حسن عبداللہ پی سی ایس کر کے سول سیکرٹریٹ میں سیکشن افسر بنے پھر ڈپٹی سیکرٹری اور آخر میں جوائنٹ سیکرٹری ہوم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ مسرور کیفی نے ایم اے اردو کے بعد ایچی سن کالج لاہور میں برسوں استاد کی حیثیت سے کام کیا وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی تعلیم ہی کے شعبے سے منسلک رہے۔ کبھی کبھار” خبریں“ کے لئے کام بھی لکھتے ہیں۔ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی اچھے شاعر بھی تھے۔ جاوید احمد خان کے بارے میں اشفاق احمد پراپنے کالم میں بھی میں لکھ چکا ہوں کہ وہ ان کے عزیز تھے بعدازاں جب میں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کا نائب صدر بنا (ان دنوں صدر کا عہدہ استاد کے پاس ہوتا تھا اور سید وقار عظیم اُردو کے معروف محقق اور تنقید نگار صدر شعبہ¿ اُردو ہماری یونین کے صدر تھے) جاوید احمد خان نے پنجاب یونیورسٹی یونین کا انتخاب لڑا اور صدر بنے۔ میں نے بی اے آنرز کے بعد ایک سال میں ایم اے عربی کیااور یونیورسٹی میں اول آنے کے سبب مجھے گولڈ میڈل ملا بعد ازاں ایک ہی سال میںدوسرا ایم اے کرنے کےلئے میں نے اردو میں داخلہ لیا۔ عطاءالحق قاسمی، امجد اسلام امجد، گلزار وفا چودھری اور آج کے متعدد ادیبوں اور شاعروں نے بھی اسی سال ایم اے اردو کیا۔ ان میں حسن رضوی مرحوم بھی تھے جن کے بارے میں محترم میر خلیل الرحمن پر لکھے گئے کالموں میں میں نے کچھ تذکرہ کیا ہے۔
یونیورسٹی اورینٹل کالج کی عمارت پرانے کیمپس کے بالمقابل واقع تھی اس کے پہلو میں ایک راستہ لا کالج ہاسٹل کی طرف جاتاتھا۔ لا کالج جس کا پورا نام یونیورسٹی لاءکالج تھا یونیورسٹی اورینٹل کالج کے سامنے تھا اور دونوں کے درمیان ایک گراسی پلاٹ تھا جسے ہمارے پرنسپل سیدعبداللہ ” چمن“ کہا کرتے تھے۔ اورینٹل کالج میں طالب علم عام طور پر دو سال تک پڑھائی کرتے تھے یعنی ففتھ ایئر اور سکستھ ایئر۔ لیکن میں چونکہ ایف اے کے بعد براہِ راست اورینٹل کالج میں بی اے آنرز کی خصوصی کلاس میں داخل ہوا تھا اس لئے پانچ برس کے لگ بھگ میں نے وہیں گزارے۔ اردو کے معروف مزاحیہ شاعر انور مسعود بھی انہی برسوں میں ایم اے اردو کے بعد فارغ التحصیل ہوئے۔ دوسرے شاعروں میں سے گوہر نوشاہی اور تبسم کاشمیری کا نام مشہور ہوا۔ ارشاد حسین کاظمی ان دنوں بہترین مقرر ہوتے تھے بعد میں صحافت میں آئے اور ارشاد راﺅ بھی ہمارے کلاس فیلو تھے جو خود کو وائس چانسلر پروفیسر حمید احمد خان کالے پالک قرار دیتے تھے۔ حمید احمد خان نے انہیں یونیورسٹی کے سالانہ ادبی مجلے ”محور“ کا چیئرمین بنایا۔ پہلے سال میں ”محور“ کا چیف ایڈیٹر رہا۔ عطاءالحق قاسمی اس سال اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے البتہ میرے یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد اگلے سال قاسمی صاحب چیف ایڈیٹر بنے۔ یونیورسٹی اورینٹل کالج کا اپنا مجلہ بھی تھا جس کا نام ”المشرق“ تھا۔ برسوں سے وہ بند تھا ہم نے اسے شروع کرنا چاہا لیکن مالی امور کی وجہ سے یہ کام مکمل نہ ہو سکا۔ یونین فنڈ میں البتہ برسوں سے کافی رقم جمع تھی۔ میں نے اپنے بعض دوستوں کی مدد سے راوی میں جہاں بہت پانی ہوتا تھا کہ ابھی بھارت نے دریا بند نہیں کئے تھے ہم نے پانچ کشتیاں بنوائیں اور کشتی رانی کلب کا آغار کیا۔ مجھ سے ایک سال جونیئر عبدالرحیم خان ثاقب تھے جن کے پاس کنورٹیبل مورس گاڑی تھی جس کی چھت کینوس کی تھی اور فولڈ ہو جاتی تھی۔ ہم سب اس کی چھت ہٹا کر چندہ کرکے اس میں پٹرول ڈلواتے اور روزانہ راوی جا کر کشتی رانی کرتے ۔ ان کشتیوں پر یونیورسٹی اورینٹل کالج کے علاوہ بڑے ادبی نام بھی درج تھے جیسے کسی کشتی پر اقبال کسی پر فیض کسی پر غالب کسی پر ذوق اور کسی پر میر تقی میر۔ ہم نے ”چمن“ میں بیڈمنٹن کا نیٹ بھی لگوایا۔ استادوں میں سے خواجہ زکریا نوجوان ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی تھے۔ جن برسوں کی بات میں کر رہا ہوں ان برسوں میں ایم اے اردو میں داخلہ بے تحاشا ہوا کیونکہ اردو کو لازمی مضمون قرار دیا جا چکا تھا اور ہر کالج میں اس کے لئے لیکچرار درکار تھا۔ اورینٹل کالج میں عربی فارسی اور اردو کے ایم اے کروائے جاتے تھے اس کے علاوہ شام کے وقت پنجابی ہسپانوی، فرنچ اور جرمن زبانوں کے ڈپلومے ہوتے تھے یاد رہے کہ ابھی پنجابی کا ایم اے شروع نہیں ہوا تھا۔ ادیب عالم اور ادیب فاضل اور مولوی فاضل جیسی ڈگریوں کی کلاسز بھی شام کو ہوتی تھیں۔ ڈاکٹر محمد باقر فارسی شعبہ کے صدر تھے۔ ڈاکٹر م ن احسان الٰہی عربی کے شعبے کے صدر تھے۔ اردو کا شعبہ سید عبداللہ کے پاس تھا جو پرنسپل بھی تھے۔ ان کے بعد سید وقار عظیم صدر شعبہ بنے۔ اردو کے معروف استادوں میں افتخار احمد صدیقی ڈاکٹر وحید قریشی ‘ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقاراور سجاد باقر رضوی بہت مشہور ہوئے۔ عربی کے شعبے میں نئی آمد پروفیسر ظہور احمد اظہر کی تھی جو ایمپریس روڈ پر واقعہ مصری کلچرل سنٹر میں ٹرانسلیٹر بھی رہے۔اسلامی کانفرنس منعقد ہوئی اور لیبیا کے صدر معمر قذافی نے بھٹو صاحب کے ہمراہ فورٹ ریس سٹیڈیم کے جلسہ عام میں تقریر کی تو ظہور احمد اظہر ان کے ساتھ کھڑے ہو کر ترجمہ کرتے رہے۔ ارشاد راﺅ بعدازاں ”الفتح“ کراچی کے ایڈیٹر بنے۔ ممتاز بھٹو اس اخبار کے زبردست حمائتی تھے کیونکہ یہ پاکستان پیپلزپارٹی کا ترجمان اخبار تھا اس کے چیف ایڈیٹر معروف ٹی وی ڈرامے اور ناول ”خدا کی بستی“ کے مصنف شوکت صدیقی ہوتے تھے۔ لاہور میں ارشاد راﺅ زمانہ طالب علمی ہی سے ”کوہستان“ کے تعلیمی رپورٹر تھے۔ میں اور مسرور کیفی پہلے سیارہ ڈائجسٹ میں مترجم رہے بعدازاں میں نے اردو ڈائجسٹ میں ملازمت اختیار کی۔ کالج میں مجھے مذاق میں ”ڈائجسٹیا“ کہا جاتا تھا کیونکہ تعلیم کے دوران مسلسل وہاں کام کرتا تھا۔
ڈاکٹر سید عبداللہ جو ہمارے پرنسپل تھے‘ ایک سیلف میڈ انسان تھے جن کا تعلق ہزارہ جیسے پسماندہ علاقے کے ایک پہاڑی گاﺅں سے تھا۔ وہ لڑکپن ہی سے مالی مشکلات کا شکار تھے‘ لیکن انہوں نے جدوجہد نہ چھوڑی اور بالآخر یونیورسٹی اورنٹیل کالج کے پرنسپل کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے‘ وہ انتہائی محنتی نوجوان تھے جو یونیورسٹی میں ریسرچ سکالر کے طور پر متعارف ہوئے۔ سال ہا سال تک قلمی کتابوں کی ورق گردانی کی جس کے باعث وہ اعلیٰ درجے کے محقق متوازن نقاد اور انتہائی قابل استاد گردانے جاتے تھے۔ تحقیق کے میدان میں وہ حافظ شیرانی اور ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کی روایت کے امین تھے۔ وہ مشرقی اور مغربی ادب سے بخوبی واقف تھے۔ عربی فارسی اور انگریزی ادب کا انہوں نے بغور مطالعہ کیا تھا۔ کلاس روم میں ان کا لیکچر انتہائی دلنشین ہونے کے علاوہ معلومات سے پُر ہوتا تھا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ پاکستان میں اردو کو اس کا صحیح مقام دلانے کے لیے ہمیشہ سرگرم عمل رہے۔ اردو شاعری میں میر‘ غالب اور اقبال انہیں بہت پسند تھے۔ ان کی کتابوں میں ”نقدِ میر“، ”اطراف غالب“ اور ”مقاماتِ اقبال“ بہت مشہور ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ سید صاحب کی سرکردگی میں اس ادارے نے بہت ترقی کی۔ سید صاحب نے عمر بھر اردو کی ترقی کے لیے ایک ادارے کی طرح کام کیا۔ پاکستان ہی نہیں بھارت میں ان کے تحقیقی اور تنقیدی کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کم و بیش نصف صدی تک اردو کے حوالے سے بے تحاشا محنت کی۔ اکثر محققین کی رائے میں وہ سرسید اورشبلی کی روایت پر چل رہے تھے۔ وہ انتہائی سادہ اور باوقار زندگی گزارتے تھے۔ وہ لفظی شان و شوکت کی بجائے اپنے اسلوب کی سادگی کے حوالے سے معروف تھے اور ان کی بات میں دلائل سے وزن پیدا ہوتا تھا۔ انہیں اعلیٰ درجے کا نقاد تسلیم کیا جاتا ہے۔ شگفتگی اور رعنائی ان کی تحریر کا خاصا تھا۔ انہوں نے اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کے الفاظ اور اصلاحات کو اپنانے کا اسلوب پیدا کیا۔ اورینٹل کالج کے پرنسپل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تو ہم طالب علموں نے احتجاج کیا کہ انہیں فارغ نہ کیا جائے۔ یونین کے صدر کی حیثیت سے میں نے ہڑتال کا فیصلہ کیا‘ لیکن ڈاکٹر صاحب نے ہم یونین والوں کو بڑے پیار سے سمجھایا کہ میری اپنی خواہش ہے کہ مجھے فارغ کر دیا جائے کیونکہ میں یونیورسٹی کے زیراہتمام اردو انسائیکلوپیڈیا میں کام کرنا چاہتا ہوں۔