ضیا شاھد کے انکشافات

اُستاد محترم…. ڈاکٹر سید عبداللہ 3…ضیا شاہد

اورینٹل کالج کے جو دوست ہمیشہ یاد رہیں گے ان میں سید حسن عبداللہ کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں جو تعلیم سے فارغ ہو کر سول سروس میں گئے تھے۔ حسن بہت ہی معصوم اور نیک نوجوان تھے۔ ایک بار ہم چند دوستوں نے کہا کہ فائنل امتحان ہونے والے ہیں پانچ سال سے تم اورینٹل کالج میں ہو (وہ بھی میری طرح ایف اے کے بعد یہاں آ گئے تھے۔) ہم نے تمہیں کسی لڑکی سے بات کرتے نہیں دیکھا وہ گورے چٹے اور خوبصورت نوجوان تھے۔ مذاق ہی مذاق میں چار پانچ دوستوں نے ان کی کمر پر ایک ایک مکا رسید کیا اور کہا کہ اگر تم نے کالج کے برآمدوں میں کسی لڑکی کو روک کر گفتگو نہ کی تو ہم تمہیں دس دس مکے مزید رسید کریں گے۔ یہ کہنے کے بعد سارے دوست انہیں فرسٹ فلور پر جہاں سیڑھیاں ختم ہوتی تھیں وہاں لے گئے اور کہا تیار ہو جاﺅ جو لڑکی نیچے سے آئے تم اس سے بات کرو گے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کئی لڑکیاں اوپر آئیں لیکن حسن عبداللہ کو جرا¿ت نہ ہوئی۔ ان کے بعض بے تکلف دوستوں نے حسن صاحب کی گردن پر ایک ایک دھول جمائی اور کہا اگر تم نے زبان نہ کھولی تو تمہاری اور پٹائی ہو گی۔ جب حسن مجبور ہو گئے تو نیچے سے آتی ہوئی عاتکہ صدیقہ کو دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی۔ وہ ایم اے اردو کی طالبہ بھی تھیں اور اپنی عمر اور تنووتوش کے سبب لڑکیوں کے ہاسٹل کی سپرنٹنڈٹ بھی۔ حسن نے سوچا ان سے بات کی جا سکتی ہے جونہی عاتکہ فرسٹ فلور پر پہنچیں حسن نے قریب جا کر کہا سسٹر ذرا بات سنیں۔ عاتکہ سے انہوں نے کوئی چھوٹی موٹی بات کی اور پھر فاتحانہ انداز میں ہماری طرف آئے۔ ہمارے دوستوں نے اس کی پٹائی شروع کر دی۔ حسن بار بار احتجاج کرتے کہ میں نے بات کر لی ہے۔ انہیں کہا گیا کہ ایک تو آپ نے اپنی سسٹر سے بات کی ہے لڑکی سے نہیں دوسرا آپ نے کالج کی سینکڑوں لڑکیوں کو چھوڑ کر ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ سے گفتگو کی ہے جسے عرف میں ”پہاڑ کہ صدیقہ“ کہتے تھے۔ حسن اپنے خیالات کو مکمل طور پر پاکیزہ رکھتے تھے اور ہنسی مذاق میں بھی حصہ نہیں لیتے تھے۔ ایک دن انہوں نے خود بڑی معصومیت سے بتایا کہ رات کو میرے دل میں ایک مرتبہ برے برے خیال آنے لگے۔ میں نے رحیم یار خان کے شہر فیروزہ فون کیا جہاں کا میں رہنے والا ہوں اور اپنے سکول کے ہیڈ ماسٹر سے اس مسئلے کا حل پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ روزانہ صبح نماز کے بعد مٹھی بھر دھنیہ چباﺅ اور بوتل میں پانی بھر کر ساتھ رکھو تاکہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد پیتے رہو اور اپنے گھر سے قریب ہی کسی میدان میں دوڑتے ہوئے دس چکر لگاﺅ۔ وہ کرشن نگر میں اپنے کسی کزن کے گھر رہتے تھے ان کے بقول قریب ترین بڑا گراﺅنڈ یونیورسٹی گراﺅنڈ تھا جو جین مندر سے شروع ہوتا اور چوبرجی تک جاتا تھا۔ وہ کئی ماہ دھنیہ کھاکھا کر اور وقفے وقفے سے پانی پی کر اس گراﺅنڈ کے دس چکر لگاتے رہے۔ کوئی نوجوان کبھی غیر اخلاقی گفتگو کرتا تو وہ بڑی محبت سے اسے یہ نسخہ بتاتے اورکہتے کل ہی سے دھنیہ کھانا اور گراﺅنڈ میں دوڑنا شروع کر دو سارے برے خیالات آنا ختم ہو جائیں گے۔
یونیورسٹی اورینٹل کالج کا ماحول بہت شاعرانہ ہوتا تھا۔ نوجوان لڑکے ہوں یا لڑکیاں زیادہ تر شاعری کرتے تھے۔ یونیورسٹی لائبریری میں احمد دین لائبریرین ہوتے تھے جنہیں بھول جانے کی بیماری تھی اور ہم انہیں ”بھلکڑ“ کہتے تھے سارا کام ان کے نائب فقیر احمد فیصل کرتے تھے جو انتہائی لمبے قد کی وجہ سے مشہور تھے۔ وہ بڑے عاشق مزاج واقع ہوئے تھے ا ور (س خ) نامی ایک لمبی اور فربہ لڑکی کے عشق میں مبتلا تھے جو اب دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں۔ فقیر احمد فیصل ایک مقامی کالج میں پڑھاتے تھے اور آج کل سنا ہے اردو بازار میں کتابیں چھاپتے ہیں۔ عبدالرحیم خان ثاقب آج کل ثاقب رحیم کے نام سے ”خبریں“ میں کالم لکھتے ہیں۔ ایم اے کرنے کے بعد وہ فوج میں چلے گئے تھے میجر کی حیثیت سے خود ریٹائرمنٹ لی اور واپڈا میں ڈائریکٹر ٹرانسپورٹ بھی رہے۔ ان کی آواز بہت اچھی تھی اور وہ یونیورسٹی لائبریری میں بیٹھ کر فلمی غزلیں اور گیت سنایا کرتے تھے۔ ”میرا پیار مجھے لوٹا دو“ کا پسندیدہ گیت تھا۔ بہرحال ان کی دُعائیں قبول ہوئیں اور ان کا ”پیار“ انہیں مل گیا۔ ہمارے زمانے میںجہلم سے آنے والے ایک نوجوان جن کا نام مجھے یاد نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ وہ راجہ تھے۔ وہ ایم اے فارسی کرنے والی ایک خاتون پر فریفتہ ہوگئے اور دن رات آہیں بھرنے لگے۔ ہمارے ایک دوست ولید میر نے جو متذکرہ خاتون کے گھر سے واقف تھے اور ان کے والدینسے میر صاحب کی جان پہچان تھی راجہ صاحب لمبے تڑنگے اور جہلم کے مخصوص خدوخال کے مالک بڑے کرخت انسان تھے جبکہ ان کی محبوبہ انتہائی نرم و نازک اور گوری چٹی کشمیری خاتون تھیں۔ ولید میر صاحب نے بالآخر راجہ صاحب کو ”حقیقت پسندی“ کا احساس دلانے کے لیے یہ انتظام کیا کہ وہ راجہ صاحب کو چائے پر خاتون کے گھر لے گئے اور خاتون کی والدہ سے راجہ صاحب کو ملوایا، چائے پینے کے بعد ان لوگوں نے اجازت لی اور واپس کالج آ کر ولید میر صاحب نے ہماری مجلس میں انہیں سمجھانا شروع کیا کہ اگر تم متذکرہ خاتون سے شادی کرنے میں کامیاب ہوگئے تو بھی یقین جانو کہ کچھ عرصے بعد تمہارے بچوں کی ماں کی شکل و صورت اسی طرح ہو جائے گی جس طرح خاتون کی ماں یعنی تمہاری ہونے والی ساس کی ہے۔ لہٰذا تم باز آ جاﺅ۔ راجہ صاحب پر ہم نے بہت دباﺅ ڈالا۔ انہوں نے خود تسلیم کیا کہ ان کی ہونے والی ساس بہت خوفناک ہے۔ ہم نے انہیں یہ بھی سمجھایا کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
راجہ صاحب سے یہ بھی وعدہ کیا گیا کہ ان کے قد کاٹھ اور وضع قطع کے مطابق لڑکی تلاش کی جائے گی، تب جا کر ان کا عشق کچھ ٹھنڈا پڑا۔ ہمارے ایک اور دوست جو ایک ادبی رسالہ نکالنے والے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک لڑکی جس کا نام بھی خواجہ کے لفظ پر ختم ہوتا تھا کے روزانہ تعاقب کے بعد کرشن نگر تک چھوڑ کر آتے تھے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے بس سٹاپ سے بیٹھتی تھی اور کرشن نگر کے آخری سٹاپ پر اترتی تھی۔ ہمارے دوست جنہیں چودھری صاحب کہا جاتا تھا اس کے ساتھ ہی بس میں سفر کرتے اور بس سے اتر کر ان کے گھر تک پیچھا کرتے۔ لڑکی نے بطور صدر یونین مجھے شکایت کی کہ ان کے محلے والوں کو شک ہوگیا ہے کہ روزانہ نوجوان اس لڑکی کا پیچھاکیوں کرتا ہے۔ ہم نے چودھری کو ایک دن گھیر لیا اور یہ سمجھایا کہ تم لڑکی سے بات تو کرتے نہیں اور بیکار میں وقت ضائع کرتے ہو۔ چودھری صاحب نے وعدہ کیا کہ اب وہ کالج کے سٹاپ تک جائیں گے اور جب لڑکی بس کا انتظار کر رہی ہوگی وہ ان کے پاس جا کر بات کریں گے۔ چودھری صاحب لاہوری ، پنجابی میں بات کرتے تھے اور ”ر“کو”ڑ“ بولتے تھے۔ اگلے روز وہ حسب پروگرام لڑکی کے پیچھے گئے۔ ہم نے دو جاسوس ان کے تعاقب میں روانہ کیے۔ چودھری صاحب نے بس سٹاپ پر ہمت کرکے لڑکی سے بات کی اور سوال کیا جناب ” ”تسی بک او“ ان کا مطلب تھا کہ کیا آپ کی کہیں منگنی وغیرہ ہو چکی ہے۔ یا آپ کسی کو پسند کرتی ہیں۔ لڑکی نے اپنی جان چھڑانے کے لیے کہا جی ہاں!۔ میں بک ہوں اور مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔ چودھری صاحب نے اپنے سر تک ہاتھ لے جا کر بالوں پر رکھا جو ان کا مخصوص انداز تھا اور کہنے لگے چلو ٹھیک ہے۔ موج کرو۔ اورینٹل کالج کی فضا میں ایسے واقعات روزانہ پیش آتے تھے۔ ایک لڑکی کی چال میں تھوڑا سا لنگڑا پن تھا۔ عرف عام میں اسے لنگڑی کہا جاتا تھا۔ ہمارے ایک دوست ذوالفقار حیدری اس پر فریفتہ ہوگئے۔ انہوں نے پوری نظم اس پر موزوں کر دی۔ نظم کا آخری شعر یہ تھا۔
کیوں اندھیرے میں ڈر گئیں مجھ سے
یہ تیرا ذوالفقار ہے لنگڑی
(جاری ہے)