ملت اداریہ

ملت اداریہ: یوم دفاع ایک نئی سوچ کے ساتھ

ہر سال چھ ستمبر مناتے وقت ہم وطن کے دفاع کو مضبوط تر بنانے کا عزم کرتے ہیں‌ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم اپنے اس عزم کو کس حد تک پایہ تکمیل تک پہنچا پائے ہیں. ہمارے سیاستدان پاناما پر تو طوفان مچا رہے ہیں لیکن وہی بھارت جو کشمیر میں‌ عشروں‌سے ریاستی دہشت گردی کرتا چلا آ رہا ہے کبھی ان کے خلاف بھی انہوں نے دھرنا یا احتجاج کیا جیسی کاوشیں اپنے اقتدار کے حصول کے لئے کرتے ہیں. ایسے مواقع پر ہمیں‌ کشمیر کو بھی یاد رکھنا چاہیے جہاں‌ ریاستی دہشت گردی گزشتہ دو ماہ سے اپنے عروج پر ہے. مسلسل دو ماہ سے لاکھوں‌کشمیری کرفیو اور پیلٹ بندوقوں‌ کے زیرسایہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں. گزشتہ روز بھارتی وفد کی آمد پر مقبوضہ کشمیر میں‌ظلم کی انتہا کر دی گئی اور چھ سو سے زائد کشمیریوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا. بھارت نے جس انداز میں‌ ہمارے ملک میں‌ دراندازی کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے ہم اس کا کتنا توڑ کر پائے ہیں‌یہ بھی ہمیں‌ آج کے دن سوچنا ہے. ہماری وہ سیاسی جماعتیں‌ جو اقتدار پر موجود ہیں‌یا جو اقتدار کے حصول کی جدوجہد کر رہی ہیں کیا انہوں‌نے کبھی سوچا کہ انہوں‌نے اس وطن کو مضبوط کرنے میں‌ کتنا حصہ ڈالا. کیا تئیس مارچ، چودہ اگست اور چھ ستمبر کو ایسا موقع آیا کہ وہ جماعتیں‌جو الیکشن میں‌دھاندلی کے لئے تو سڑکوں‌پر نکل آتی رہی ہیں کبھی انہوں‌نے اکٹھے ہو کر ایسا کوئی قومی دن منایا ہو. کیا انہوں‌نے دنیا کو ایسا کوئی پیغام دینے کی کوشش کی کہ ہماری سیاسی مسائل اور اختلافات اپنی جگہ لیکن جب بات وطن کے دفاع اور ملکی سلامتی کی آتی ہے تو ہم اس میں‌ حکومت اپوزیشن، مذہبی غیر مذہبی کی تفریق کرنے کو تیار نہیں. پرچم کو سربلند رکھنے کے لئے ہم ایک ہیں اور ایک رہیں‌گے. کیا ہم آج کے دن خود سے یہ وعدہ کریں گے کہ ہم کوئی ایسا سیاسی یا غیر سیاسی قدم نہیں‌اٹھائیں‌گے جو ہمارے ملک کو داخلی یا خارجی سطح‌پر کمزور کرے گا؟ کیا یہ یوم دفاع ہم اس نئی سوچ کے ساتھ منانے کو تیار ہیں کہ یہ وطن ہماری سیاست، ہمارے اقتدار، ہمارے اختلافات سے کہیں‌زیادہ مقدم اور محترم ہے؟