منتخب کردہ کالم

انگریزوں کا کلچر اور ہندوستان…عبدالقادر حسن

ک یہودی کی داستان عشق و عاشقی یا انداز عشق جو ویلنٹائن ڈے کے نام سے مشہور ہے دنیا میں اس قدر مقبول ہوا کہ مغرب سے ہوتا ہوا مسلمان ملکوں میں بھی دور دور تک پھیل گیا جیسا کہ مشہور ہے کہ بدی بہت جلدی پھیلتی ہے، یہ بدی بھی دنیا میں پھیل گئی اور مغربی ممالک نے جن کے لیے یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں بلکہ ایک پسندیدہ مشغلہ تھا اس کے پھیلانے میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا مسلمان چونکہ اب رفتہ رفتہ اپنی تہذیب سے بیگانہ ہوتے جا رہے ہیں، معاشرتی پابندی اور عام ناپسندیدگی کے باوجود اس دن اپنی محبوباؤں کے لیے سرخ پھول ہاتھوں میں لیے انھیں پیش کرنے کے موقعے کے انتظار میں رہے۔

دیگر تحفے تحائف بھی ان عاشقوں کے پاس تھے اس طرح کروڑوں روپوں کے تحفے خریدے اور پیش کیے گئے لیکن ہمارا معاشرہ چونکہ اس رسم کو پسند نہیں کرتا بلکہ اس پر کچھ پابندیاں بھی عائد کی گئیں، اس لیے زیادہ کھل کر عشق و عاشقی کا یہ کھیل نہیں کھیلا جا سکا جن نوجوانوں نے کسی قسم کی شناسائی کے بغیر سرخ پھول پیش کرنے کی کوشش کی، ان کو لڑکیوں نے جوتوں سے بے عزت اور خبردار کیا۔

ابھی تک پولیس نے کسی سرخ پھول والے نوجوان کو گرفتار نہیں کیا، ابھی تک صرف لڑکیوں نے ان کی سرزنش کی ہے۔ بہر حال 14 فروری اس کا دن ہے اس دفعہ پاکستان میں یہ دن اتوار کا دن تھا لیکن اس مسلمان ملک کا ماحول ایسا تھا کہ اس دن کو منایا نہ جا سکا۔

یہ دن چونکہ ہمارے معمولات میں شامل نہیں ہے اور کوئی عید بقر عید نہیں ہے کہ یاد رہے اس لیے اخباروں نے اس کی یاد دہانی کا فرض ادا کیا۔ میں نے سارے اخبار بھی دیکھے جن کے صفحات چیخ چیخ کر قارئین کو یاد دلا رہے تھے کہ تیار ہو جائیں آپ کی محبوبہ آپ کا انتظار کر رہی ہے اور ویلنٹائن ڈے سر پر ہے۔

سرخ پھول کا انتظام کر لیں۔ پاکستانی نوجوانوں نے پھول تو انتہائی مہنگے داموں خرید لیے لیکن میں نے مایوسی کا یہ منظر بھی دیکھا جب کئی نوجوانوں نے یہ پھول ہاتھوں میں لیے ہوئے تھے ان بدقسمتوں کو وہ ہاتھ نہ مل سکے جن کے سپرد وہ ان کی امانت کر سکتے۔ یہ سرخ پھول اپنی شاخ پر کھل سکتے ،کسی حنائی ہاتھ میں مہک سکتے، یادوں کو تازہ کر سکتے، وہ سب کچھ کر سکتے جو ان کو تحفہ بنا کر لیے پھرتے تھے۔

ہم پاکستانی ابھی ویلنٹائن ڈے جیسے دنوں سے بہت دور ہیں اور مغربی تہذیب کا پروپیگنڈا ابھی ہماری تہذیب کا حصہ نہیں بن سکتا۔ ہم بہت سارے معاملات میں ان سے جدا ہیں۔ انگریز سو دو سو برسوں میں بمشکل ہمارے لباس میں کچھ تبدیلی لا سکے۔ سنا ہے کسی زمانے میں معزز لوگ شلوار قمیض پر ٹائی لگایا کرتے تھے۔ میں نے دو چار ایسی تصویریں دیکھی ہیں۔ غالباً ایک تصویر مشہور ناول نگار ایم اسلم کی بھی تھی اور کچھ ان کے بارود خانے والے عزیزوں کی تھیں جن کی یاد ہمیں ان کا برخوردار میاں یوسف صلی دلاتا ہے۔

لباس کی حد تک یہ تبدیلی رک نہ سکی جاری رہی اور اب یہ لباس ایک عام لباس ہے جسے نوجوان بڑے شوق کے ساتھ پہنتے ہیں اور اس لباس کی الگ دکانیں بھی ہیں اور لباس کی عام دکانوں پر بھی دستیاب ہے۔ اسے یوں سمجھیں کہ انگریزوں کی لائی ہوئی تبدیلی لباس کی حد تک عوام میں بھی پھیل گئی اور پرانے دیسی لباس کے ساتھ ساتھ یہ بھی رائج ہو گئی لیکن برطانوی دور کی یہ تبدیلی صرف لباس وغیرہ کی حد تک ہی ہو سکی اس سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

برصغیر میں جہاں مرد انگریز رہے وہاں ان کے ساتھ ان کی عورتیں بھی تھیں لیکن یہ مغربی جوڑے رکھ رکھاؤ کے ساتھ رہتے تھے اور پبلک میں ایک دوسرے کا ہاتھ تک نہیں پکڑتے تھے۔

ان کی تقریبات بھی ہوتی تھیں اور ناچ گانے بھی لیکن یہ سب کسی نہ کسی بند ہال میں منعقد ہوتا تھا۔ لاہور میں جہاں اب لارنس گارڈن ہے یہاں ایک بڑا سا ہال تھا لاہور جمخانہ بھی اسی عمارت میں تھا۔ لاہور میں انگریز حکمرانوں کی سوشل تقریبات اس ہال میں ہوا کرتی تھیں۔ یہاں ذکر کر دیں کہ پورے ہندوستان میں کرسمس جیسا تہوار منانے کے لیے دو شہر تھے جو انگریزوں میں بہت مقبول تھے، ایک کلکۃ تھا دوسرا لاہور۔ کلکۃ اس لیے کہ ان کی ہندوستان پر قبضہ کی کہانی اسی شہر سے شروع ہوئی تھی اور یوں اس شہر کے ساتھ ان کی پرانی قومی یادیں وابستہ تھیں اور لاہور تہذیبی لحاظ سے ہندوستان کا ایک بھرا پڑا شہر تھا اور سب سے زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔ میں یہ تو نہیں بتا سکتا کہ انگریزوں کو یہ شہر کیوں پسند تھا لیکن پورے ہندوستان میں کلکتہ کے بعد دوسرا پسندیدہ لاہور تھا جہاں وہ کرسمس جیسا تہوار منایا کرتے تھے۔

بات مغربی کلچر کی ہو رہی تھی جس کا رواج تو ضرور ہوا لیکن مشرقی معاشرے کی پابندیوں کے ساتھ اس میں معاملات حد سے نہیں بڑھے ویسے بھی ہندوستان میں انگریز حکمرانوں کی کل تعداد کوئی چالیس ہزار کے قریب تھی جس میں برطانوی فوجی بھی شامل تھے۔

انگریزوں نے حکمت عملی سے کام لیا اور اتنے بڑے ملک کو اپنی اس تھوڑی سی تعداد کے ساتھ قابو میں رکھا۔ انھوں نے ہندوستان کے بڑے طبقوں اور خاندانوں کی خوب سرپرستی کی اور ’خان صاحب‘ سے لے کر ’خان بہادر اور سر تک کے خطابات دے کر اور نمبرداروں ذیلداروں کے ذریعہ اپنا اقتدار قائم رکھا۔ ایک ڈی سی ایک ایس پی اور ایک سیشن جج یہ تین افسر تھے جو پورے ضلع کو قابو میں رکھتے تھے۔

ان کی نگرانی گورنر ہاؤس سے ہوتی تھی اور یوں انگریز سو ڈیڑھ سو سال تک اطمینان کے ساتھ حکمرانی کرتے رہے۔ وہ تو برطانیہ میں ایک ایسا وزیر اعظم آ گیا جو آزادی دینے کے حق میں تھا ورنہ برطانوی سیاستدان سر ونسٹن چرچل کے خیال میں ابھی مزید پچاس برس تک حکمرانی کی جا سکتی تھی۔ بہر حال بات کلچر اور تہذیب کی ہو رہی تھی جس کے اثرات اب تک محسوس کیے جاتے ہیں۔