خبرنامہ

اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ووٹ کا حق اور خصوصی نشستیں…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ووٹ کا حق اور خصوصی نشستیں…اسد اللہ غالب

چودھری عبدالغفار صاحب برمنگھم کے نواح میں ولورہمپٹن میں رہائش پذیر ہیں۔وہ ان تین شخصیات میں سے ایک ہیں جنھوں نے اس شہر میں پی ٹی آئی کی بنیاد رکھی اور اسے پروان چڑھایا۔وہ بزنس کے شعبے سے منسلک ہیں،حلال کھانے کو ترجیح دیتے ہیں،اور غریب پروری میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔انتہائی ملنسار،خوشگوار شخصیت اور مہمانوں کی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں۔دوستوں کے دوست اور شمنوں کا دل جیتنے کے ہنر سے بھی آشنا ہیں۔پاکستان میں ان کا تعلق جڑانوالہ روڈپر گاؤں ’77RB لوحکے‘ سے ہے۔اس علاقے کے لوگ فراخ دلی کی دولت سے مالامال ہیں۔
گزشتہ اتوار کوہڈر فیلڈ کے اختر وحید نے کمیونٹی کا ایک بہت بڑا اجتماع کیا۔میں ان کالموں میں بتا چکا ہوں کہ اختر وحید کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔نچلے بیٹھنے والے نہیں ہیں۔وہ سمجھتے تھے کہ کمیونٹی کی پہلی تنظیمیں غفلت کا شکار ہیں یا اتحاد کے فقدان کی وجہ سے بے اثر ہو چکی ہیں۔اس لئے انہوں نے نیا خون آگے لانے کا پلان بنایااور کمیونٹی کی ایک نئی ویلفیئر فاؤنڈیشن قائم کی۔چودھری عبدالغفار اسکے سینئر وائس چیئر مین ہیں۔ انہوں نے نئے عہدے پر منتخب ہوتے ہی مجھے ایک لمبی کال کی کہ آپ تیس برسوں میں کئی بار برطانیہ آچکے ہیں اور اوورسیزپاکستانیوں کے دکھ درد سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔اس لیے براہ کرم ہماری آواز بنئے اور اس وقت جبکہ ملک میں اہم فیصلے ہورہے ہیں توہماری آواز ایوان اقتدار تک پہچائیے۔کابینہ کے حالیہ اجلاس میں ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے کہ اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملے گا۔ہم یہ اعلان ماضی کے ایک درجن حکمرانوں سے سن چکے ہیں لیکن برمنگھم میں پی ٹی آئی کے بانی ہونے کی حیثیت سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب فیصلے کی گھڑی آچکی ہے۔’اب یا کبھی نہیں‘ کے مصداق یہ حق آج ہمیں نہ ملا تو پھر کبھی نہیں مل سکے گا۔ہم یہ سن سن کر پھولے نہیں سماتے کہ ہمارا قیمتی زرمبادلہ ملکی معیشت کی رگوں میں نیا خون دوڑاتا ہے۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ شوکت خانم ہماری فنڈنگ سے تعمیر ہوا،الشفا ء کمپلیکس ہمارے چندے سے چل رہا ہے،ملک کے طول وعرض میں بیواؤں اور یتیموں کو ہم امداد دیتے نہیں تھکتے لیکن اس ساری ستائش کے باوجود ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں۔ہم پاکستان میں پلاٹ لے بیٹھیں تو ان پر قبضہ ہوجاتا ہے۔کوئی گھر تعمیر کرلیں تو ہمارے رشتے دار اسے اینٹھ لیتے ہیں۔ہم ایئر پورٹ پر اترتے ہیں تو امیگریشن اور کسٹم والے ہمارے سوٹ کیسوں کے بخیے ادھیڑکر رکھ دیتے ہیں۔ہمارے مسائل کا ڈھیر لگتا ہے تو ہم پاکستان کا رخ کرتے ہیں مگر ہم پٹوار ی سے ملیں،کچہری جائیں،کسی سرکاری دفتر کے دروازے پر دستک دیں تو ہماری بات سنی ان سنی کر دی جاتی ہے۔ ملک کا انتظامی ڈھانچہ ہماری اس مجبوری کافائدہ اٹھاتا ہے کہ ہم نے کونسا یہاں بیٹھے رہنا ہے، بس آئے ہیں تو ہفتے دو ہفتے میں چلے جائیں گے، اس لیے ہم کو بھلا پھسلا کر،دھکے دے کر دفتروں سے باہر نکال دیا جاتا ہے اور ہم سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔
چودھری عبدالغفار کہنے لگے کہ ہمیں جب تک ووٹ کا حق نہیں ملتا،ہماری داد فریادپر کوئی کان نہیں دھرے گا۔مگر ہم صرف ووٹ کا حق نہیں مانگتے،ہم اپنے لیے خصوصی نشستیں بھی مانگتے ہیں۔ ہمیں ووٹ کا حق دیا جائے اور ہم ان لوگوں کو ووٹ دیں جو ہمارے اردگرد بستے ہیں۔ اگر ہماری آبادی کا تناسب سامنے رکھا جائے تو صرف یو کے سے ہمارے چار نمائندے بنتے ہیں۔باقی یورپ کی بھی دو سیٹیں ہونی چاہیے اور امریکہ سے بھی کم از کم دو سیٹیں اور مشرق بعید میں بسنے والے پاکستانیوں کو ایک سیٹ ضرور ملنی چاہیے۔اور ان سیٹوں پر انہی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کوہی امیدوار بننا چاہیے چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔جہاں تک ٹیکنو کریٹ سیٹوں کا تعلق ہے،وہ ساری کی ساری اوورسیز پاکستانیوں کے حصے میں آنی چاہیئں۔یہ اس لیے کہ آج تک کتنے ہی وزیر خزانہ باہر سے امپورٹ کیے جاتے رہے ہیں،بلکہ وزیر اعظم بھی امپورٹڈ ہی بنتے رہے ہیں۔ معین قریشی ہوں یا شوکت عزیز،محمد علی بوگرا کو بھی ایک جہاز بھیج کر بلوایا گیا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ اور خاص طور پر امریکہ میں ٹیکنالوجی،میڈیسن اورفنانس کے شعبے میں اوورسیز پاکستانیوں نے کمال کے جوہر دکھائے ہیں، ناسا جیسے اداروں میں بھی پاکستانی ماہرین اپنا لوہا منوا چکے ہیں مگر صرف پاکستان ہی ان لوگوں کی قدر نہیں کرتا۔پنجاب کے موجودہ گورنر چودھری محمد سرور بھی سکاٹ لینڈ سے ہی گئے ہیں،ویسے بھی پاکستانی سیاستدان اقتدار میں ہوں تو پاکستان میں رہتے ہیں، اس کے بعد وہ بیرون ملک آکر اپنے محلات آباد کر لیتے ہیں۔پاکستان کے تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کی اولادیں تو بیرون ملک ہی پلتی،بڑھتی اور پڑھتی ہیں اور یہاں ہی شادیاں رچا لیتے ہیں۔ اس پس منظر میں اوورسیز پاکستانیوں کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔عبدالغفار نے درد بھرے لہجے میں کہا کہ اوور سیز پاکستانی اپنے ملک کے سچے خیر خواہ ہیں،وہ تجربے کی بے بہا دولت سے مالا مال ہیں،وہ جانتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ کی ترقی کا راز کیاہے،یہاں جمہوریت کانظام کیسے پنپ رہا ہے اور سوشل سکیورٹی کا نظام ہر شہری کوکیسے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ہم لوگ میرٹ پر یقین رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہاں جمہوری ادارے کیوں عدم استحکام کا شکار نہیں ہوتے۔ہمیں قدم قدم پر قانون کی بالادستی کا سبق ملتا ہے،اس لیے اگر ہمارے نمائندے پاکستان کے آئین ساز اداروں میں پہنچیں گے تو وہ پاکستان کو استحکام بخش سکتے ہیں، میرٹ سے آشنا کرسکتے ہیں اور قانون کی حاکمیت منوا سکتے ہیں۔
عبد الغفار صاحب تیس برس سے دیار غیر میں زندگی بسر کررہے ہیں، ان کا شمار معاشرے کے کامیاب ترین انسانوں میں ہوتا ہے،وہ ہر کسی کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد بنا لیتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ پاکستان بھی انہی رویوں سے ایک جمہوری،فلاحی اور انقلابی ریاست بن سکتا ہے جس کا خواب قائد اعظم اور بانیان پاکستان نے دیکھا تھا اور جسے آج ریاست مدینہ کی مثال قرار دیا جارہا ہے۔چودھری عبدالغفار سے تفصیلی بات چیت کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں کے جذبات کی ترجمانی کا حق ادا کردیا ہے۔پاکستانی حکومت ِکو ان کی اس خواہش کا احترام کرنا چاہئے۔ ایک تو آئندہ الیکشن میں ان کو ووٹ کا حق دیا جائے، اور دوسرے، پانچ سات جنرل اور پانچ ٹیکنوکریٹس نشستیں مختص کی جائیں، چودھری عبدالغفار کا کہنا ہے کہ ہم ہزاروں میل دور بیٹھے پاکستانی امیدواروں کو ووٹ دیں گے تو ان سے اپنے کام کیسے کرواسکیں گے۔ اگریہی نمائندے ہم اپنے اپنے ملکوں میں سے چنیں تو وہ ہمارے سامنے ہر لمحہ جواب دہ رہیں گے