خبرنامہ

کمپنی نہیں چلے گی، آزادی آزار کی انتہا…اسد اللہ غالب

کمپنی نہیں چلے گی، آزادی آزار کی انتہا…اسد اللہ غالب

امریکہ میں ایک گورے سارجنٹ نے کسی کالے کی گردن پر گوڈا رکھ دیا۔۔اور پورے امریکہ میں کیا کالے اور کیا گورے سب نے ایک قیامت برپا کر دی۔
ہم اپنے آرمی چیف کے بوٹوں تلے اپنے وزیر اعظم کو کارٹون بنا دیں تو ا سے آزادی اظہار کا نام دیا جائے اور اسے مزاحیہ کارٹون کہنے پر اصرار کیا جائے۔ میں اس سادگی پر قربان جاؤں۔
ٹھیک ہی لکھا گیاکہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔اس میں شک کی گنجائش ہی نہیں۔ جس کمپنی میں فالودے والے پاپڑ والے ہوں تو یہ کمپنی نہیں چلے گی۔کمپنی کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے دھمکی دی جائے کہ نئی منتخب قومی اسمبلی کے ڈھاکہ اجلاس میں کسی نے شرکت کی تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی تو پھر کمپنی نہیں ملک توڑ ڈالا گیا اور ایک یہ دھمکی دی گئی کہ سب سے پہلے فلاں ایڈیٹر کو فکس اپ کر دیں گے یا کسی کی فائل پر حکم جاری کر دیا جائے کہ اسے فکس اپ کر دیں تو اس کمپنی کا مالک پھانسی پانے سے نہ بچ سکا۔
کبھی ایسا بھی ہوا کہ کمپنی کئی پیشین گوئیوں کے باوجود بند نہیں ہوئی۔ میڈیا کے طوطے کسی کمپنی کے بارے میں ہر ماہ پیش گوئی کرتے رہے کہ یہ کمپنی صرف تین ماہ اورچلے گی مگر تین ماہ گزرنے کے بعد کمپنی اسی طرح میدان میں دندنا رہی ہوتی تو فال نکالنے والے طوطے چوہے کی طرح کھسیانی ہنسی سے وقت ٹالنے کی کوشش کرتے۔ کبھی ڈنڈے برسا کر فدا محمد خان۔ محمد خان جونیجو، اور غلام مصطفی جتوئی کو راستے کا کانٹا سمجھ کر پرے پھینک دینے سے کمپنی ڈانواں ڈول ہی رہی۔
کوئٹہ چرچ
بات درست ہے کہ یہ کمپنی نہیں چل سکتی کیونکہ کمپنی کا مالک پہلے تولو،پھر بولو لو کی ازلی ابدی نصیحت پر عمل کرنے کو تیار نہیں، وہ شہیدوں کا جی بھر کے مذاق اڑاتا ہے اور ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ کتے کو شہید مانیں گے۔ مادر وطن کئے لئے جانیں نثار کرنے والوں کی توہین کرنے سے تو کمپنی چلنے سے رہی، گلا پھاڑ پھاڑ کر پوچھتے رہو کہ مجھے کیوں نکلا۔ ویسے اس جملے میں ایک جوہری تبدیلی کر نے کا وقت آ گیا ہے۔ اب کہنا چاہئے کہ دیکھا میں کیسے نکل بھاگا۔

سوال تو بنتا ہے کہ پاپڑ والوں اور فالودے والوں کی کمپنی کیوں نہ چلی۔ دامادوں کی کمپنی کیوں نہ چلی۔ ون ہائیڈ پارک۔ مے فیئر۔ سرے محل اور سوئس اکاؤنٹس والوں کی کمپنی کیوں نہ چلی۔ اس سوال کا جواب نہ بقراط کے پاس ہے نہ سقراط کے پاس نہ افلاطون کے پا س۔ اور یہ جو نیا سوال ہے، سوال نہیں بلکہ طوطے کی نئی فال ہے یا علی بابا کی پیش گوئی کہ کمپنی نہیں چل سکتی اور سکتہ طاری ہے کہ خامہ فرسائی کے باوجود کیوں چل رہی ہے۔ اس کمپنی کے حصے داروں میں جھگڑا کیوں نہیں کھڑا ہو تا، یہ سب ایک پیج پر کیوں ہیں، ملک کی معیشت ڈوب چکی ہوا خزانہ خالی ہو اور قوم کا دیوالیہ نکلنے کو ہو تو اس کمپنی نے کندھے سے کندھا ملا کر خزانہ کیسے بھرا اور قدرتی آفت کرو میں ساری دنیا میں لاشیں بکھیریں اور لوگ فاقہ زدہ ہو گئے مگر ہماری کمپنی نے کرونا کا راستہ روکنے کی تدبیر بھی کی اور خلق خدا کو فاقوں سے بھی محفوظ رکھا۔ جب کمپنی میں اتفاق ہو تو اللہ بھی کرم اور فضل کرتا ہے۔
پریشانی یہ ہے کہ کمپنی چل رہی ہے تو کیوں۔ ہم نے ماضی میں اپنی ہر کمپنی کا بیڑہ غرق کر لیا۔ جب ان کی کمپنی کا مالک جیل کی ہوا کھا رہا ہے اور ہم مادر پدر آزاد ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ کوئی صحافی جس کمپنی کا ملازم ہوتا تھا اسی کا دم بھرتا تھا، آج وہ بی بی سی،وائس آف امریکہ اور یو ٹیوب تک منہ ماری کر رہا ہے، آج مالک کمزور اور ملازم منہ زور۔ مالک سے بڑھ کر ملازمین کے بنگلے اور پلازے ہیں اور ملکوں ملکوں ہیں۔ مگر پراپرٹی پر قید بھگت رہا ہے تو مالک۔

ہمیں دکھ ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر کیوں ہیں۔ ہم اپنی حکومت اور فوج کی تذلیل کے لئے کارٹون بناتے ہیں اور پھر ان کے جواز کی منطق بھی پیش کرتے ہیں۔کارٹونوں کا جواز تو پیرس کا اخبار بھی پیش کرتا ہے۔ہم نے کبھی خون آشام بھیڑیئے مود ی کا تو کارٹون بنانے کی جرات تک نہیں کی۔
ہمیں اپنی شکل بگاڑنے کی مہارت حاصل ہے اور ہمیں یہ شوق بھی لاحق ہے کہ طوطے کی طرح فال نکالیں اور کہیں کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔ ہمیں استاد امام دین کی طرح اپنے گوڈے میں درد جگر اور اپنے گٹوں میں مالی خولیا لاحق ہے۔
میرے ماں باپ کا کوئی کارٹون بنا دے یا میں کسی کے ماں باپ کو کارٹون بنا ڈالوں تو ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں اور اگر وزیر اعظم اور آرمی چیف کی شکل بگاڑ کر پیش کیا جائے اور یہ ڈھنڈورا پیٹا جائے کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی تو اسے آزادی اظہار کہا جائے، جبکہ دنیا اسے آزادی آزار ہی کہے گی۔
مادر پدر آزادی کی آڑ میں ہر کسی کی پگڑی اچھالی جا سکتی ہے۔ ناروے کا اخبارا ور پیرس کا میگزین اسی آزادی اظہار سے مستفید ہو رہا ہے۔
آزادی اظہار کی کوئی حد نہیں ہوتی اور نہ آزادی آزار کی کوئی حد ہے۔ ایسا انسانوں کے نہیں، حیوانوں کے معاشرے کا طرہ امتیاز ہو سکتا ہے۔
مہذب معاشرے میں سیاست اور صحافت کی حدیں واضح ہوتی ہیں جبکہ حیوانی معاشرے میں دونوں طرف کے ہاتھی یہ حدیں روند ڈالتے ہیں۔