خبرنامہ

گھوسٹ میڈیا کی بلیک میلنگ…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

گھوسٹ میڈیا کی بلیک میلنگ….اسد اللہ غالب

آپ نے گھوسٹ اسکولوں اور گھوسٹ ہسپتالوں کا ذکر تو سنا ہوگا اور بھی کئی سرکاری اور غیر سرکاری گھوسٹ اداروں کے بارے میں جانتے ہوں گے۔جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا مگر ان کا سٹاف ہر ماہ باقاعدگی سے تنخواہیں بٹورتا ہے،بے بنیاد جھوٹے ٹی اے ڈی اے بھی دئیے جاتے ہیں۔عمارتوں کی تعمیر و مرمت اور سازو سامان کی فراہمی کے جعلی بل بھی وصول کیے جاتے ہیں۔مگر حقیقت میں ان کا کوئی نام و نشان نہیں ہوتا۔ماضی میں ایک مرتبہ گھوسٹ اسکولوں کے خلاف کارروائی شروع کی گئی مگر یہ مافیا اتنا طاقت ور تھا کہ کاروائی سرے نہ چڑھ سکی۔کچھ عرصی پہلے وفاقی وزیر تعلیم نے سینیٹ آف پاکستان کے اجلاس میں ڈمی اخبارات کی ایک فہرست ہوا میں لہرائی اور انکشاف کیا کہ انہیں پچھلی حکومتوں نے کروڑوں روپے کے اشتہاروں سے نوازا ہے۔سینیٹر صاحب یہ بات کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوگئے۔شاید انہوں نے سمجھ لیا ہوگا کہ انہوں نے محکمہ اطلاعات کے ضمیر کو جھنجوڑ ڈالا ہے۔بہر حال ان کی کوشش رائیگاں نہیں گئی۔وفاقی محکمہ اطلاعات نے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو اشتہارات کی شکایات کا جائزہ لے گی اور ان کا ازالہ کرے گی۔اس کمیٹی نے اپنا کام شروع کردیا ہے اور اس کے دو اجلاس بھی ہوچکے ہیں جن کی تفصیل آپ آگے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) اسلام آباد نے سرکاری اشتہارات کے حوالے سے شکایات کے ازالہ کے لئے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔کمیٹی کے چیئرمین پی آئی ڈی ریجنل آفس لاہور کے ڈائریکٹر جنرل شفقت عباس ہوں گے جبکہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل شعبہ اشتہارات،ڈائریکٹر ہوم پبلسٹی اورڈائریکٹر جنرل پی آئی ڈی ریجنل ا ٓفس کراچی کمیٹی کے ارکان ہوں گے۔کمیٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کردیاگیاہے۔کمیٹی کا اجلاس ہر ماہ ہوا کرے گا۔کمیٹی اپنے پہلے اجلاس میں ٹی او آرز طے کرے گی۔ تمام ریجنل دفاتر کے حکام متعلقہ شکایات کے ازالہ کے لئے کمیٹی سے تعاون کرنے کے پابند ہونگے۔اشتہارات کی شکایات کے ازالے کی کمیٹی (اے سی آر سی) کا پہلا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ڈمی اشاعتوں کی نشاندہی کرنے اور پھر انہیں مرکزی میڈیا کی فہرست (سی ایم ایل) سے ہٹانے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔غوروخوض کے دوران یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ چند ڈمی پبلی کیشنز نے کمیٹی کے کام شروع کرنے سے پہلے ہی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے۔ اجلاس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ کمیٹی میڈیا کی نمائندہ تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرے گی تاکہ باقاعدہ اشاعتوں کو یقینی بنایا جائے۔کمیٹی نے ابتدائی مسودے کو حتمی شکل دی اور اسے عام کرنے سے پہلے مزید غور و خوض کے لیے اراکین کے ساتھ شیئر کیا۔اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈی جی پی آئی ڈی لاہور شفقت عباس نے کہا کہ قومی اور علاقائی اخبارات کے شکایت کنندگان کی شکایات کے ازالے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ ٹی او آرزکا مسودہ بھی تیار کیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ شکایات مقررہ طریقہ کارکے ذریعے درج کی جائیں گی جو آن لائن دستیاب ہو گا۔اجلاس میں آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس)، کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای)، پاکستان فیڈریشن آف یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)، کالم نگاروں، نامور صحافیوں اور دیگر صحافتی تنظیموں کا شکریہ ادا کیا گیا جنہوں نے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی کوششوں میں مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ اجلاس میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایڈورٹائزمنٹ اسلام آباد نے ذاتی طور پر شرکت کی جبکہ ڈائریکٹر جنرل پی آئی ڈی کراچی اور پشاور کے علاوہ ڈائریکٹر ہوم پبلسٹی اسلام آباد نے زوم کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔
ماضی میں ڈمی اخبارات نے اشتہارات کو ذریعہ معاش بنا کر قومی خزانے کو خوب لوٹا اور آہستہ آہستہ یہ ٹولہ ایک مافیا کا روپ ڈھال گیا اور یہ ٹولہ اس قدر طاقتور ہوگیا کہ جب کبھی کسی افسر نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی تو یہ سب اس کے خلاف نبرد آزماء ہو گئے اور اپنے مفادات پر ضرب نہیں لگنے دی اس تناظر میں پریس انفارمیشن ڈیپاٹمنٹ کا ڈمی اخبارات کے خلاف راست اقدام کرنے کا فیصلہ ایک دلیرانہ عزم ہے اس بار ان کی خوش قسمتی ہے کہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری ہیں اور وزیراعظم عمران خان ہیں جو دونوں اس ڈمی مافیا کی قومی دولت کی لوٹ مار سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان کی بلیک میلنگ کو ختم کرنے کی واضح ہدایات دے چکے ہیں تاکہ حق حقدار کو ہی مل سکے۔
سوال یہ ہے کہ گھوسٹ اور ڈمی اخبارات ایک طاقت ور مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔امید تو کی جانی چاہئے کہ وفاقی محکمہ اطلات کی مخصوص کمیٹی ڈمی اخبارات کی لوٹ مار کا سلسلہ بند کرے گی لیکن جب ہم ملک کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو ہر طرف مایوسی ہی مایوسی نظر آتی ہے منی لانڈرنگ مافیا،میڈیسن مافیا،شوگر مافیا،آٹا مافیا ا، قبضہ مافیاور مہنگائی مافیا کا توڑ تلاش نہیں کیا جاسکا اور ان کا سد باب نہیں کیا جاسکا تو ڈمی مافیا کو کون نکیل ڈالے گا۔بہر حال امید کی جاسکتی ہے کہ وزیر اعظم اس مافیا کو کچلنا چاہتے ہیں وزیر اطلاعات اس مافیاکو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔پی آئی ڈی خصوصی کمیٹی کے سربراہ جناب شفقت عباس ایک نیک نام افسر کی شہرت رکھتے ہیں وہ نہ کسی سے دبتے ہیں نہ کسی کے سامنے جھکتے ہیں بلکہ اٹل فیصلے کرتے ہیں اور یقینی طور پر ڈمی اخبارات اور رسالوں کی مالی لوٹ مارر کا راستہ بند کرکے دم لیں گے۔میں ایسے ڈمی مالکان کو جانتا ہوں جن کا اخبار کسی نیوز اسٹال پر نظر نہیں آتا لیکن وہ حکومتوں کو بلیک میل کرکے اتنا مال کما چکے ہیں کہ ملک کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں انہوں نے کمرے بک کر رکھے ہیں جہاں راتیں جاگتی ہیں اور شراب و کباب کی محفلیں سجتی ہیں۔حرام کمائی کا پیسہ حرام کے کاموں پر خرچ ہورہا ہے اور یہ قائد اعظم کے بنائے ہوئے پاکستان کے بالکل منافی ہے جنہوں نے ملک کی بنیا د شریعت محمدی ﷺپر رکھی تھی اور آج کی حکومت تو ملک کو ریاست مدینہ بنانے پر تلی ہوئی ہے تو گھوسٹ اور ڈمی اخباری مافیا کا گلا گھونٹے بغیر نہ قائد اعظم کا پاکستان اورنہ ریاست مدینہ کی تشکیل ہوسکتی ہے اس لیے حکومت کو اپنے فیصلو ں پر اڑ جانا چاہئے اور جب ہر ادارے کی تطہیر ہورہی ہے تو شعبہ صحافت کی تطہیر بھی لازمی امر ہے۔