خبرنامہ

اسلاموفوبیا کے تدارک کے لیے عالمی دن…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اسلاموفوبیا کے تدارک کے لیے عالمی دن…اسد اللہ غالب

پندرہ مارچ کی سہ پہر کو وزیر اعظم عمران خان نے اوور سیز پاکستانیوں کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے یہ پیشین گوئی کی کہ آج اقوام متحدہ میں اسلامو فوبیا کے خلاف ایک قرار داد پیش کی جائے گی جسے منظور کر لیا جائے گا ،پاکستان اور امریکہ کے وقت میں نو دس گھنٹے کا فرق ہے۔اس لیے پاکستان میں جب رات کا وقت تھا تو یو این او کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کے مستقل نمائندے منیر اکرم نے جنرل اسمبلی میں یہ قرار داد پیش کی کہ پندرہ مارچ کو اسلامو فوبیا کے تدارک کا عالمی دن قرار دیا جائے۔اس قرار داد کو اسلامی کانفرنس کے ستاون ممالک اور آٹھ مزید ممالک جن میں چین اور روس بھی شامل ہیں ان کی حمایت حاصل تھی ۔یہ قرار داد اتفاق رائے سے منظور کر لی گئی ۔واضح رہے کہ پندرہ مارچ وہ دن ہے جب نیو زی لینڈ میں ایک درندہ صفت شخص نے مسجد میں گھس کر بلا اشتعال درجنوں نمازیوں کو شہید کر دیا تھا ۔اس اقدام پر نیو زی لینڈ کی وزیر اعظم نے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اس پر مسلمانوں سے معذرت بھی کی ۔اقوام متحدہ سے قرار داد کی منظوری پر وزیر اعظم عمران خان نے ایک بیان میں قوم کو خوشخبری سنائی اور اس قرار داد کا خوشدلی سے خیر مقدم کیا۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے اور مذہبی بنیادوں پر منافرت کو جائز قرار نہیں دیتا ۔اس لیے آج کی قرار داد اقوام متحدہ کے منشور کے عین مطابق ہے ۔وزیر اعظم عمران خان وہ واحد شخص ہیں جو پچھلے کئی برسوں سے اسلامو فوبیا کے خلاف احتجاج کرتے نظر آتے ہیں ۔انہوں نے تین سال قبل جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے بھی اسلامو فوبیا کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی تھی ۔چند ماہ قبل پاکستان میں او آئی سی وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس ہوا ،جس میں افغان بدحالی کو دور کرنے کے لیے اقدامات پر غور کیا گیا تھا تو وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر بھی اپنی تقریر میں اسلاموفوبیا کو موضوع بنایا اور او آئی سی کو اپیل کی کہ وہ اپنے پلیٹ فارم سے اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھائے۔وزیر اعظم عمران خان کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کے صدر پیوٹن اور کینیڈا کے وزیر اعظم ٹرو ڈو نے بھی اسلاموفوبیا کے خلاف آواز بلند کی اور اس ضمن میں عمران خان کی ہاں میں ہاں ملائی ۔مسلمانوں کے خلاف نفرت تو عمومی طور پر دیکھنے میں آتی رہتی ہے لیکن نائن الیون کے بعد اس لہر میں شدت پیدا ہوگئی ،حالات کی سنگینی کا عالم یہ تھا کہ ہر داڑھی والے مسلمان کو دہشت گرد سمجھا جاتا۔امریکی ایئر پورٹوں پر امیگریشن حکام مسلمانوں کو الف ننگا کرکے تلاشی لیتے ۔امریکی کمپیوٹروں میں محمد اور احمد کے ناموں کو خدا نخواستہ دہشت گردوں سے وابستہ کر دیا گیا اور ان ناموں والے اشخاص کو ٹارچر تک کا نشانہ بنایا جاتا ۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی کا سانحہ ہوتا تو اسے مسلمانوں کے سر منڈھ دیا جاتا ۔اسلامک ٹیرر ازم کی نئی اصطلاح رائج ہوگئی ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ جدید دور میں خود کش یلغار کا سب سے بڑا واقعہ جاپانیوں کے ہاتھوں سر زد ہوا جب ایک امریکی بندر گاہ پرلہ یاربر پر جاپانی ہوا بازوں نے کامی کازی حملہ کر دیا ۔یہ ایک خود کش واردات تھی جس میں جاپانی ہوا بازوں نے جان پر کھیل کر امریکی بحری بیڑے پر تباہی مچا دی تھی۔عجیب بات یہ ہے کسی نے انہیں بدھ دہشت گرد قرار نہیں دیا ۔اس کے جواب میں امریکہ نے ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم پھینکے اور لاکھوں انسانوں کے خلاف دہشت گردی کا ارتکاب کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ لیکن کسی نے انہیں مسیحی دہشت گرد کا طعنہ نہیں دیا۔امریکی اسکولوں میں آئے روز گن فائر ہوتا ہے یہاں بھی کوئی ان طالب علموں کو عیسائی دہشت گرد نہیں کہتا ۔اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی کر دی ،نہتے فلسطینی مسلمانوں کو ٹینکوں اور توپوں کے گولوں سے اڑا دیا ۔فلسطینیوں کے ہنستے بستے گھروں کو میزائلوں سے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ۔مگر اس کے باوجود دنیا نے یہودی دہشت گردی کی اصطلاح رائج نہیں کی ۔بھارت میں دہشت گردی کی ایک آندھی چل رہی ہے ۔نریندر مودی نے وزیر اعلیٰ کے طور پر مسلمانوں کی ایک ٹرین جلا کر راکھ کر دی۔سمجھوتہ ٹرین کو بموں سے خاکستر کر دیا گیا ،صدر ٹرمپ کی موجود گی میں دہلی کے مسلمانوں کے محلے جلا دیے گئے۔جنت نظیر وادی کشمیر میں بھارت نے پچھتر برسوں سے دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے لیکن کبھی عالمی میڈیا میں ہندو دہشت گرد کی اصطلاح استعمال نہیں کی گئی ۔مگر صد افسوس کہ مسلمانوں کو کبھی معاف نہیں کیا جاتا ،انہیں اذیت پہچانے کے لیے سب سے مکروہ حربہ یہ بھی استعمال کیا ہے کہ پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی ذات کو برا بھلا کہا جاتا ہے ۔ناروے کے اخباروں نے ان کے کارٹون بنائے اور انہیں آزادیٔ اظہار کا نام دیا گیا ۔پیرس کے ایک میگزین نے بھی حضور ﷺ کے خاکے بنائے اس مکروہ حرکت کو بھی آزادی ٔاظہار کا نام دیا گیا ۔مسلمانوں نے جب اس پر احتجاج کیا تو ان خاکوں کو دنیا بھر کے اخبارات میں شائع کروایا گیا اور فرانسیسی صدر نے ذاتی طور پر ان خاکوں کے پوسٹر پیرس کے گلی بازاروں میں چسپاں کروائے۔عالم اسلام تڑپتا تو رہا لیکن کوئی مؤثر احتجاج نہ کر سکا ۔امریکہ کے ایک پادری نے یہاں تک جسارت کی کہ قرآن پاک کے مقدس صفحات کو نذر آتش کردیا ۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اذیت پہنچانے کی یہ ایک منظم سازش کی گئی ہے ۔وزیر اعظم عمران خان اس پر خاموش نہ رہ سکے ۔انہوں نے مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لیے اپنی کوششیں شروع کیں جو اب رنگ لے آئی ہیں اور اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی اب یہ قرار داد منظور کرنے پر مجبور ہو اہے کہ پندرہ مارچ کو ہر سال اسلاموفوبیا کے خلاف مہم چلائی جائے گی اور دنیا کو مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا جائے گا۔حقیقت یہ ہے کہ اسلاموفوبیا کے خلا ف پندرہ مارچ کا دن مسلمانوں کی ایک بڑی فتح کے مترادف۔اب ہر کوئی منہ اٹھا کر رسول پاک ﷺ کی توہین کی گھٹیا جسارت نہیں کر سکے گا اور نہ ہی مسلم دہشت گردی جیسے الفاظ کا استعمال روز مرہ اور محاورہ بن جائے گا ۔اسلامو فوبیا کے خلاف یہ دن دنیا کو باور کرائے گا کہ مسلمان خواتین اگر حجاب کرتی ہیں تو اس کو برا نہ سمجھا جائے اور ان پر آوازیں نہ کسی جائیں اور نہ ان کو معاشرے میں نکو بنایا جائے ۔حجاب اسلامی معاشرے کا عکاس ہے جس کا انتہا پسندی یا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اقوام متحدہ کی اس قرار داد کے تحت مسلم خواتین کو حجاب پہننے کی آزادی حاصل ہوسکے گی ۔عمران خان نے جس طرح تن تنہا اسلامو فوبیا کے خلا ف آواز اٹھائی اور جس طرح اقوام متحدہ نے اسلاموفوبیا کے تدارک کے لیے پندرہ مارچ کا دن مقرر کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حق اور سچ کا علم بلند کرنے والا بالآخر سر خرو ہو کر رہتا ہے۔اگرچہ صاف ظاہر ہے کہ صرف ایک دن منانے سے اسلاموفوبیا کا تدارک نہیں ہوسکے گا لیکن یہ ایک ابتدائی قدم ہے ،مسلمان اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور جمے رہیں تو پھر نہ کسی کو توہین رسالت کی جراء ت ہوسکے گی اور نہ مسلمانوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دینے کا موقع ملے گا۔ ہمیں خاموش نہیں بیٹھ جا نا چاہئے اور اپنی کوششیں تیز تر کردینی چاہئیں ۔اسلام امن کا دین ہے ۔اخلاق اور حیا اس کی پہچان ہیں ،ہمیں اسلام کے امن کے پیغام کو عام کرنا چاہئے تاکہ اقوام متحدہ کے اس دن کے فوائد مکمل طور پر سمیٹ سکیں ۔